بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حدیث شریف سے کسی چیز کی قیمت کم کرانے کا ثبوت


سوال

کیا قیمت کم کروانے کےلیے بحث کرنا حدیث سے ثابت ہے ؟

جواب

خریداری کے وقت بھاؤ تاؤ کرنا اور قیمت کم کرانا حدیث سے ثابت ہے، چناں چہ حضرت سوید بن قیس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ "میں نے اور مخرفہ عبدی نے مقام حجر سے کپڑا خریدا تاکہ اسے فروخت کر دیں (حجر یہ مدینہ کے قریب جگہ ہے) ، ہم وہ کپڑا فروخت کے لیے مکہ لائے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس بذاتِ خود تشریف لائے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سواری کا اہتما م نہیں فرمایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے ایک پائجامہ خریدا اور ہم نے وہ پائجامہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فروخت کیا ، وہاں ایک آدمی لوگوں کاسامان قیمت پر تولتا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو فرمایا تولو اور جھکتا ہوا تولو، یعنی جتنی مقدار طے ہوئی ہے اس سے ذرا جھکتا تولو"،ابو یعلیٰ نے اپنی  مسند میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ جنا ب رسول  اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ پائجامہ چاردرہم میں خرید لیا تھا ، اس حدیث میں لفظ   ساومنا آیا ہے جس کے معنی ہیں  خریداری کے وقت بھاؤ تاؤ کرنا۔

اسی طرح مسلم شریف میں  حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ '' وہ (حضرت جابر رضی اللہ عنہ ) ایک سفر میں تھے کہ ان کا اونٹ چلنے سے عاجز آگیا، انہوں نے اونٹ کو وہیں چھوڑنے کا ارادہ کیا، پھر حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے آملے اور میرے لیے دعا کی اور اونٹ (کو چلانے کے لیے )اس کو مارا تو اب وہ اس قدر تیز چلنے لگا کہ اس سے پہلے وہ اس رفتار سے نہیں چلاتھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے کہا کہ یہ اونٹ مجھے ایک اوقیہ (چالیس درہم) میں بیچ دو، میں نے عرض کیا کہ میں نے نہیں بیچنی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر کہا کہ یہ مجھے ایک اوقیہ میں بیچ دو تومیں نے ایک اوقیہ میں یہ اونٹ بیچ دیالیکن میں نے اپنے گھر (مدینہ تک) اس پر سوار ہونے کی شرط لگائی ، پھر جب میں اپنے گھر مدینہ پہنچ گیاتو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اونٹ لے کر حاضر ہوا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس کے طے شدہ پیسے دے دیے، پھر میں جانے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے واپس بلوایا اور کہا کہ "کیا تم  یہ سمجھتے ہو کہ میں نے تمہارا اونٹ لینے کے لیے قیمت کم دی ، اپنا اونٹ بھی لے جاؤ اور اس کے پیسے بھی"،حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی اس حدیث میں ماکستک کا لفظ ہے یہ مماکسۃمصدر سے ہے جس کے معنی ہیں خریدو فروخت کے وقت قیمت کم کرانا،  مسلم شریف کی شرح میں امام نووی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث سے بہت سارے فائدے حاصل ہوتے ہیں ان میں سے ایک خریدو فروخت کے وقت قیمت کم کرانے کا جائز ہونا ہے۔

مسلم شریف میں ہے:

"عن عامر ، حدثني جابر بن عبد الله :  أنه كان يسير على جمل له قد أعيا، فأراد أن يسيبه، قال: فلحقني النبي صلى الله عليه وسلم فدعا لي، وضربه فسار سيرا لم يسر مثله، قال: بعنيه بوقية. قلت: لا، ثم قال: بعنيه. فبعته بوقية، واستثنيت عليه حملانه إلى أهلي، فلما بلغت أتيته بالجمل، فنقدني ثمنه، ثم رجعت فأرسل في أثري، فقال: أتراني ‌ماكستك لآخذ جملك؟ خذ جملك ودراهمك فهو لك ".

(كتاب المساقاة والمزارعة، ‌‌باب بيع البعير واستثناء ركوبه، 41/2، ط: مكتبة إنعامية)

مشکاۃ شریف میں ہے:

"عن سويد بن قيس قال: جلبت أنا ومخرفة العبدي بزا من هجر فأتينا به مكة فجاءنا رسول الله صلى الله عليه وسلم يمشي ‌فساومنا ‌بسراويل فبعناه وثم رجل يزن بالأجر فقال له رسول الله: «زن وأرجح» . رواه أحمد وأبو داود والترمذي وابن ماجه والدارمي وقال الترمذي: هذا حديث حسن صحيح".

(كتاب البيوع، باب الإفلاس والإنظار، 440/1، ط: البشرى)

مسلم کی شرح المنہاج للنووی میں ہے:

"واعلم أن في حديث جابر هذا فوائد كثيرة إحداها: هذه المعجزة الظاهرة لرسول الله صلى الله عليه وسلم في انبعاث جمل جابر وإسراعه بعد إعيائه، الثانية: جواز طلب البيع ممن لم يعرض سلعته للبيع الثالثة جواز ‌المماكسة في البيع".

(كتاب البيوع، باب بيع البعير واستثناء ركوبه، 35/11، ط: دار إحياء التراث العربي)

لسان  العرب میں ہے:

"المساومة: المجاذبة بين البائع والمشتري على السلعة وفصل ثمنها".

(حرف الميم، فصل السين المهملة، 310/12، ط: دار صادر)

تاج العروس میں ہے:

"وفي حديث عمر: لا بأس بالمماكسة في البيع، وهو إنتقاص الثمن وإنحطاطه، والمنابذة بين المتبايعين، وبه فسر حديث جابر: أترى أنما ماكستك لآخذ جملك".

(فصل الميم مع السين، 514/16، ط: طبعة الكويت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144407101236

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں