بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رجب 1446ھ 19 جنوری 2025 ء

دارالافتاء

 

قیمت متعین کر کے ایک ہفتے کے ادھار پر سونا خریدنے کے بعد کسی بھی چیز پر قبضہ کیے بغیر آگے اس سونے کو پانچ دن کے ادھار پر بیچنے کا حکم


سوال

میں سونے کا کاروبار کرتا ہوں، میں ایک ہفتے کے وعدے پر زید سے ایک تولہ سونا دو لاکھ روپے میں خرید لیتا ہوں، یعنی ہم دونوں یہ طے کرتے ہیں کہ ہمارا سودا ہوچکا ہے، لیکن ایک ہفتے بعد میں زید کو پیسے ادا کروں گا تو زید مجھے سونا دے دےگا، پھر سودا ہونے کےدو دن کے بعد جب قیمت اضافہ ہوجائے تو میں اسی طرح دوسرے بندے (خالد) پر بطور وعدہ کے وہ سونا دو لاکھ دو ہزار روپے میں بیچ دیتا ہوں یعنی ہم دونوں یہ طے کرلیتے ہیں کہ ہمارا سودا ہوچکا ہے، لیکن نہ تو میں اسے سونا دیتا ہوں اور نہ ہی اس سے پیسے لیتا ہوں بلکہ اس سے کہتا ہوں کہ پانچ دن بعد زید سے ایک تولہ سونا لے لینا اور اسے رقم دے دینا، پھر مقررہ دن آنے پر خالد زید کے پاس جاکر دو لاکھ دو ہزار روپے دے کر ایک تولہ سونا لے لیتا ہے، پھر میں زید کے پاس جاکر اس سے اپنے منافع کے دو ہزار روپے لے لیتا ہوں۔

کیا میرے لیے اس طرح کاروبار کرنا اور اس طرح نفع کمانا جائز ہے؟ اگر جائز نہیں ہے تو جواز کی کیا صورت ہوگی؟

جواب

 سوال میں ذکر کردہ طریقہ پر یعنی  ادھار پر سونا خرید کر قبضہ کیے بغیر آگے ادھار پر بیچنا درج ذیل وجوہات کی وجہ سے ناجائز ہے:

(1)عدمِ جواز کی پہلی وجہ یہ ہے کہ چوں کہ پیسوں کے عوض سونے کی خرید و فروخت بیعِ صرف کہلاتی ہے،اور بیعِ صرف کےجائز ہونے کے لیے شرط یہ ہےکہ دونوں طرف سے معاملہ نقد ہو،یعنی ایک ہاتھ سے سونا دیا جائے اور دوسرے ہاتھ سے پیسے وصول کیے جائیں، کسی بھی جانب  سے ادھار جائز نہیں ہے، اس لیے کہ پیسوں کے عوض سونے چاندی کی خرید و فروخت میں کسی بھی جانب سے ادھار کرنا سود یعنی  ’’ربا النسیئہ‘‘ کے زمرے میں آتا ہے جس کے بارے میں احادیث میں سخت ممانعت وارد ہوئی ہے، اس لیے آپ کا ایک ہفتے ادھار کے وعدے پر سونا خریدنا اور پھر  ادھار پر آگے بیچنا بالکل ناجائز ہے۔

(2)عدمِ جواز کی دوسری وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ’’بیع الکالئ بالکالئ‘‘ (یعنی دَین/ ادھار کے عوض دَین/ادھار کی بیع) سے منع فرمایا ہے، لہٰذا سونا اور پیسے چوں کہ قبضے کے بغیر متعین نہیں ہوتے، اس لیے صورتِ مسئولہ میں آپ جس وقت ایک تولہ سونا خریدنے کا سودا کرنے کے باوجود نہ ہی سونا قبضے میں لیتے ہیں اور نہ ہی بائع کو پیسے دیتے ہیں تو آپ کے ذمہ پر پیسوں کی ادائیگی لازم ہوتی ہے اور اور بائع کے ذمہ ایک تولہ سونے کی ادائیگی لازم ہوجاتی ہے ، لہٰذا یہ معاملہ  دَین( ادھار) کے عوض دَین(ادھار) کا سودا ہونے کی وجہ سے ’’بیع الکالئ بالکالئ‘‘ بننے کی وجہ سے ناجائز ہے، اسی طرح آپ جب دو دن بعد دوسرے شخص کو اسی طریقے پر سونا فروخت کرتے ہیں کہ نہ تو اسے سونا حوالے کرتے ہیں اور نہ ہی اس سے پیسے لیتے ہیں تو یہ دوسرا سودا بھی بیع الکالئ بالکالئ ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے۔

(3)عدمِ جواز کی تیسری وجہ بیع قبل القبض ہے یعنی آپ بائع سے سونا خریدنے کا سودا کرنے کے بعد اس سونے پر قبضہ کیے بغیر اسے آگے دوسرے شخص کو بیچ دیتے ہیں اور دوسرا شخص مقررہ وقت آنے پر براہِ راست آپ کے بائع کو پیسے ادا کر کے اس سے سونا وصول کرلیتا ہے،سونا آپ کے قبضے میں آئے بغیر ہی آگے دوسرے شخص (خریدار) کے قبضے میں چلا جاتا ہے، حالاں کہ رسول اللہ ﷺ نے قبضے کرنے سے پہلے مملوکہ چیز کو بیچنے سے منع فرمایا ہے، اس لیے آپ کا دوسرے شخص کو سونا بیچنا بیع قبل القبض ہونے کی وجہ سے بھی ناجائز ہے۔

چناں چہ سوال میں ذکر کردہ طریقے پر سونے کی خرید و فروخت بھی ناجائز ہے اور اس سے حاصل ہونے والا منافع بھی ناجائز اور حرام ہے۔

سونے کی خرید و فروخت کی جائز صورت یہ ہوسکتی ہے کہ آپ سونا نقد پیسے ادا کر کے خریدلیں، اگر نقد پیسے دستیاب نہ ہوں تو کسی سے پیسے قرض لے کر سونے کی قیمت (دو لاکھ روپے) نقد ادا کردیں (خواہ بائع (زید) سے قرض پیسے لے لیں یا کسی اور سے)، بہرحال مجلسِ عقد میں سونے کی قیمت ادا کرنے اور سونے پر قبضہ کرنے کے بعد یہ معاملہ جب مکمل ہوجائے گا تو پھر خالد کے پاس جا کر اس کو  نقد ادائیگی کی شرط پر فروخت کر کے مجلسِ عقد میں ہی ہاتھ در ہاتھ سونا اسے دے دیں اور قیمت وصول کرلیں۔الغرض سونے کی خرید و فروخت کا معاملہ نقد بنقد ہونا ضروری ہے، ادہار ہرگز جائز نہیں ہے۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"وعن أبی سعید الخدری رضی اللّٰہ عنه قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیه وسلم: الذهب بالذهب والفضة بالفضة والبر بالبر والشعیر بالشعیر والتمر بالتمر والملح بالملح مثلاً بمثل یداً بید فمن زاد او استزاد فقد أربی ، الآخذ والمعطی فیه سواء."

(مشکاۃ المصابیح، ج:2، ص:244، ط:مکتبه قدیمی)

شرح معاني الآثار میں ہے:

"«حدثنا أبو بكرة، وابن مرزوق، قالا: ثنا أبو عاصم، قال أبو بكرة في حديثه: أخبرنا موسى بن عبيدة، وقال ابن مرزوق في حديثه عن موسى بن عبيدة الزيدي، عن عبد الله بن دينار، عن ابن عمر، أن النبي صلى الله عليه وسلم نهى عن بيع الكالئ بالكالئ يعني: الدين بالدين»."

(كتاب البيوع ،رقم الحدیث: 5554، ج:21/4، ط: عالم الکتب)

«مشكاة المصابيح»  ميں هے:

"وعن ابن عمر: أن النبي صلى الله عليه وسلم نهى عن بيع الكالئ بالكالئ. رواه الدارقطني."

(‌‌‌‌كتاب البيوع، باب المنهي عنها من البيوع، الفصل الثاني، 2/ 866، ط:المكتب الإسلامي - بيروت)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(هو) لغةً: الزيادة. وشرعاً: (بيع الثمن بالثمن) أي ما خلق للثمنية ومنه المصوغ (جنساً بجنس أو بغير جنس) كذهب بفضة، (ويشترط) عدم التأجيل والخيار و (التماثل ) أي التساوي وزنا (والتقابض) بالبراجم لا بالتخلية (قبل الافتراق) وهو شرط بقائه صحيحا على الصحيح (إن اتحد جنسا وإن) وصلية (اختلفا جودة وصياغة) لما مر في الربا (وإلا) بأن لم يتجانسا (شرط التقابض) لحرمة النساء (فلو باع) النقدين (أحدهما بالآخر جزافاً أو بفضل وتقابضا فيه) أي المجلس (صح)."

(قوله: بالبراجم) جمع برجمة بالضم: وهي مفاصل الأصابع ح عن جامع اللغة. (قوله: لا بالتخلية) أشار إلى أن التقييد بالبراجم للاحتراز عن التخلية، واشتراط القبض بالفعل لا خصوص البراجم، حتى لو وضعه له في كفه أو في جيبه صار قابضا.

(قوله: قبل الافتراق) أي افتراق المتعاقدين بأبدانهما، والتقييد بالعاقدين يعم المالكين والنائبين، وتقييد الفرقة بالأبدان يفيد عموم اعتبار المجلس."

(كتاب البيوع، باب الصرف،ج:5، ص:257- 259، ط: سعيد)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(ويفسد) الصرف (بخيار الشرط والأجل) لإخلالهما بالقبض (ويصح مع إسقاطهما في المجلس) لزوال المانع وصح خيار رؤية وعيب في مصوغ لا نقد.

(قوله: ويفسد الصرف) أي فسادا من الأصل؛ لأنه فساد مقترن بالعقد كما في المحيط شرنبلالية.

(قوله: لإخلالهما بالقبض) لأن خيار الشرط يمتنع به استحقاق القبض ما بقي الخيار؛ لأن استحقاقه مبني على الملك والخيار يمنعه والأجل يمنع القبض الواجب درر. (قوله: ويصح مع إسقاطهما في المجلس) هكذا في الفتح وغيره، والظاهر أن المراد إسقاطهما بنقد البدلين في المجلس لا بقولهما أسقطنا الخيار والأجل، إذ بدون نقد لا يكفي وأنه لا يلزم الجمع بين الفعل والقول، ثم رأيت في القهستاني قال: فلو تفرقا من غير تقابض أو من أجل أو شرط خيار فسد البيع، ولو تقابضا في الصور قبل التفرق انقلب صحيحا اهـ. ونحوه في التتارخانية فافهم. (قوله: لزوال المانع) أي قبل تقرره درر."

(کتاب البیوع ،باب الصرف، 259/5، ط، دار الفکر)

البحر الرائق میں ہے:

"(هو بيع بعض الأثمان ببعض) كالذهب والفضة إذا بيع أحدهما بالآخر أي بيع ما من جنس الأثمان بعضها ببعض وإنما فسرناه به ولم نبقه على ظاهره ليدخل فيه بيع المصوغ بالمصوغ أو بالنقد فإن المصوغ بسبب ما اتصل به من الصنعة لم يبق ثمنا صريحا ولهذا يتعين في العقد ومع ذلك بيعه صرف۔۔۔شرائطه فأربعة، الأول قبض البدلين قبل الافتراق بالأبدان."

(قوله: فلو تجانسا شرط التماثل والتقابض) أي النقدان بأن بيع أحدهما بجنس الآخر فلا بد لصحته من التساوي وزنا ومن قبض البدلين قبل الافتراق."

(كتاب الصرف، ج:6، ص:209، ط:دارالكتب الاسلامى)

فتح القدیر  میں ہے:

"(ولا بد من قبض العوضين قبل الافتراق) لما روينا، ولقول عمر -رضي الله عنه-: وإن استنظرك أن يدخل بيته فلاتنظره، ولأنه لا بد من قبض أحدهما ليخرج العقد عن الكالئ بالكالئ ثم لا بد من قبض الآخر تحقيقًا للمساواة فلايتحقق الربا، ولأن أحدهما ليس بأولى من الآخر فوجب قبضهما سواء.

(قوله: ولا بد من قبض العوضين قبل الافتراق) بإجماع الفقهاء. وفي فوائد القدوري: المراد بالقبض هنا القبض بالبراجم لا بالتخلية يريد باليد، وذكرنا آنفا أن المختار أن هذا القبض شرط البقاء على الصحة لا شرط ابتداء الصحة لظاهر قوله: فإذا افترقا بطل العقد، وإنما يبطل بعد وجوده وهو الأصح. وثمرة الخلاف فيما إذا ظهر الفساد فيما هو صرف يفسد فيما ليس صرفًا عند أبي حنيفة - رحمه الله - ولايفسد على القول الأصح."

(باب الصرف، 6/260، ط: رشیدیة)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(وعلته) أي علة تحريم الزيادة (القدر) المعهود بكيل أو وزن (مع الجنس فإن وجدا حرم الفضل) أي الزيادة (والنساء) بالمد التأخير فلم يجز بيع قفيز بر بقفيز منه متساويا وأحدهما نساء.

(قوله وأحدهما نساء) أي ذو نساء والجملة حالية قال ط: فلو كان كل نسيئة يحرم أيضا لأنه بيع الكالئ بالكالئ ابن كمال أي النسيئة بالنسيئة كمال. ثم اعلم أن ذكر النساء للاحتراز عن التأجيل، لأن القبض في المجلس لا يشترط إلا في الصرف وهو بيع الأثمان بعضها ببعض أما ما عداه فإنما يشترط فيه التعيين دون التقابض كما يأتي."

(کتاب البیوع ،باب الربا، 171/5، ط، دار الفکر)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(وصح البيع بالفلوس النافقة) وإن لم تعين كالدراهم.

"(قوله: وإن لم تعين) لأنها صارت أثمانا بالاصطلاح فجاز بها البيع ووجبت في الذمة كالنقدين، ولا تتعين وإن عينها كالنقد."

(کتاب البیوع، باب الصرف، ج:5، ص:270، ط:سعید)

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع ميں هے:

"روي أن رسول الله صلى الله عليه وسلم «نهى عن بيع ‌الكالئ ‌بالكالئ» أي النسيئة بالنسيئة."

(كتاب البيوع، فصل في شرائط الركن، 5/ 202، ط: دار الكتب العلمية)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"من حكم المبيع إذا كان منقولاً أن لايجوز بيعه قبل القبض."

(کتاب البیوع، الباب الثاني، الفصل الثالث، ج:3/ 13، ط:رشیدیة )

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:

"(ومنها) القبض في بيع المشتري المنقول فلا يصح بيعه قبل القبض؛ لما روي أن النبي صلى الله عليه وسلم «نهى عن بيع ما لم يقبض» ، والنهي يوجب فساد المنهي؛ ولأنه بيع فيه غرر الانفساخ بهلاك المعقود عليه؛ لأنه إذا هلك المعقود عليه قبل القبض يبطل البيع الأول فينفسخ الثاني؛ لأنه بناه على الأول، وقد «نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيع فيه غرر» ، وسواء باعه من غير بائعه، أو من بائعه؛ لأن النهي مطلق لا يوجب الفصل بين البيع من غير بائعه وبين البيع من بائعه، وكذا معنى الغرر لا يفصل بينهما."

(کتاب البیوع، فصل في شرائط الصحة في البيوع،5/ 180، ط:دار الكتب العلمية)

فتاوی مفتی محمود ؒمیں ہے:

"سوال:کیا فرماتے ہیں علماءدین متین کہ آج مثلاً سونے کا حاضر بھاؤ 600  روپیہ فی تولہ ہے، ایک سنار ہم سے 10 تولے سونا مانگتاہےایک ماہ کے ادھارپر، ہم اس سے کہتے ہیں کہ میں تو 640 روپے فی تولہ دوں گا، وہ کہتاہے کہ دے دو، رقم ایک ماہ میں ادا کردوں گا، ہم اس کو سونا دیتے ہیں، تو عرض یہ ہے کہ آج کے بھاؤ سے ہمیں  10 تولے سونے میں 400 روپے بچت ہوتی ہے، کیا یہ ہمارے لیے جائز ہےیا نہیں؟"

محمدیونس

جواب:

"یہ تو بیعِ صرف ہے، اس میں ادھار جائز نہیں"۔فقط واللہ اعلم

بندہ محمداسحاق، نائب مفتی مدرسہ قاسم العلوم ملتان

"بیعِ سابق صحیح نہیں ہے، فاسد ہے، اس میں جو نفع  ہواہےاسے خیرات کردیاجائے"۔فقط واللہ اعلم

الجواب صحیح، محمدعبداللہ

(ج:8، ص:450، ط:جمعیت پبلیکیسنز لاہور)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144601101517

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں