بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قیمت مختلف ہونے کی صورت میں صدقہ فطر کی ادائیگی کس اعتبار سے کی جائے؟


سوال

1- میرا تعلق صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع دیر بالا سے ہے، یہاں پر آٹے کے 20 کلو تھیلے کا ریٹ 3300 ہے، جبکہ بازاروں میں اسی قیمت میں تقریباً روزانہ کی بنیاد پر ردوبدل ہوتا رہتا ہے،اس  لیے سوال  یہ ہے کہ صدقہ فطر کتنا ادا کرنا چاہیے؟

2-اگر کوئی سرکاری ملازم پہلے سے فطرا نہ ادا کرتا آرہا ہو اور اب اگر موجود حالات (مہنگائی)   بچوں اور دیگر گھریلوں ضروریات کے باعث فطرہ ادا نہ کرےتو کیا مذکورہ شخص گناہ گار ہوگا؟

جواب

1- صدقۂ فطر  کی مقدار گندم  کے اعتبار سے   پونے دو کلو گندم یا  پونے دو کلو گندم  کی مارکیٹ کی قیمت ہے،البتہ  احتیاط اس میں ہے کہ   فی کس دو کلو گندم یا اس کی قیمت کا حساب کرلیا جائے، اور اگر گندم کی قیمت آپ کے علاقے میں بدلتی رہتی ہے تو   آپ اپنے علاقے کی  اوسط درجے کی دوکلو گندم یا اس کی قیمت صدقہ فطر میں ادا کردیں،اور قیمت میں اس دن کی قیمت کا اعتبار ہوگا جس دن صدقہ فطر ادا کیا جارہا ہوگا۔

2- کسی شخص کے صاحب نصاب ہونے کے بعد اس پر صدقہ فطر کی ادائیگی واجب ہوجاتی ہے، اور جب تک صدقہ فطر ادا نہیں کردیا جاتا  اس وقت تک وہ ذمے میں باقی رہتا ہے، مذکورہ سرکاری ملازم اگر صاحبِ نصاب ہے تو اس پر لازم ہے کہ  جس طرح پہلے صدقہ فطر کی ادائیگی کا اہتمام کرتا رہا ہے  اسی طرح امسال بھی حسبِ سابق صدقہ فطر ادا کرے، مہنگائی کوئی ایسا عذر نہیں  ہے کہ جس کی وجہ سے شریعت کے  احکام معطل ہوجائیں ، رزق کا وعدہ اللہ کی جانب سے طے شدہ ہے ،جو ہر حال میں پورا ہو کر رہے گا ، جہاں مال کو اور دیگر بہت سے دنیاوی کاموں میں خرچ کیا جاریا ہے وہاں اگر  اللہ کے دیے ہوۓ مال میں سے اللہ ہی کے لیے  تھوڑ ا بہت  خرچ کردیا جاۓ گا تو اس  سے  مال میں کوئی کمی نہیں آۓ گی ،بلکہ  الله تعالی كے وعدے كے مطابق ہر اعتبار سے زیادتی ہی ہوگی۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"وهي نصف صاع من بر أو صاع ‌من ‌شعير أو تمر، ودقيق الحنطة والشعير وسويقهما مثلهما والخبز لا يجوز إلا باعتبار القيمة، وهو الأصح.............. ثم قيل يجوز أداؤه باعتبار العين والأحوط أن يراعى فيه القيمة هكذا في محيط السرخسي."

(كتاب الزكوة ، الباب الثامن في صدقة الفطر،210،11/1،ط:دارالکتب العلمیة)

وفیہ ایضاً:

"وإن أخروها عن يوم الفطر لم تسقط، وكان عليهم إخراجها، كذا في الهداية."

(كتاب الزكوة ، الباب الثامن في صدقة الفطر،211/1،ط:دارالکتب العلمیة)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وجاز دفع القيمة في زكاة وعشر وخراج وفطرة ونذر وكفارة غير الإعتاق) وتعتبر القيمة يوم الوجوب، وقالا: يوم الأداء. وفي السوائم يوم الأداء إجماعا، وهو الأصح."

(كتاب الزكوة، باب زكوة المال،299/2،ط:سعید)

بدائع الصنائع میں ہے:

‌"وإنما ‌له ‌ولاية ‌النقل إلى القيمة يوم الأداء فيعتبر قيمتها يوم الأداء، والصحيح أن هذا مذهب جميع أصحابنا."

(كتاب الزكوة، فصل صفة الواجب في أموال التجارۃ،111/2، دارالکتب العلمیة)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144409100670

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں