ایک عورت کا شوہر جیل میں ہے (بیس سال قید ہے) نان ونفقہ پر قادر نہیں ہے تو قاضی شرعی تفریق بین الزوجین کرسکتا ہے یا نہیں؟
صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃ ً مذکورہ عورت کے شوہر کو بیس سال قید کی سزا ہوئی ہے، اور اس کی جلد رہائی کی کوئی امید نہیں ہے تو ایسی صورت میں اگر عورت کے لیے نان ونفقہ اور گزارہ کا کچھ انتظام ہو، اور وہ اتنی مدت تک صبروتحمل اور عفت کے ساتھ زندگی گزارسکے تو وہ عورت صبر کرے، اور اگراس کے نان و نفقہ کا کوئی انتظام نہ ہو یا شوہر کے بغیر رہنے میں عفت وعصمت پر داغ لگنے اور گناہ اور فتنہ میں پڑنے کا قوی اندیشہ ہے تو ایسی صورت میں شوہر سے طلاق لے لے یا باہمی رضامندی سے خلع حاصل کرلے، البتہ اگر اس کی صورت نہ ہو تو مجبوری میں مسلمان جج کی عدالت میں فسخ نکاح کا دعوی دائر کرے، اور قاضی مکمل تحقیق کے بعد دونوں کے نکاح کو فسخ کرسکتا ہے۔
کفایت المفتی میں ہے:
"(سوال) ایک شخص کو کالے پانی کی سزا بتعین ۲۰ سال کی ہوئی ہے اور اس کی بیوی جوان ہے وہ اس عرصہ تک نہیں رہ سکتی اور اپنی شادی کرنا چاہتی ہے تو ایسی صورت میں عقد ثانی کا کیا حکم ہے؟
(جواب ۹۹) اگر ممکن ہو تو اس قیدی شوہر سے طلاق حاصل کرلی جائے لیکن اگر حصول طلاق کی کوئی صورت ممکن نہ ہو تو پھر یہ حکم ہے کہ اگر عورت اتنی طویل مدت تک صبر نہ کرسکتی ہو یا اس کے نفقہ کی کوئی صورت خاوند کی جائداد وغیرہ سے نہ ہوتو کسی مسلمان حاکم سے نکاح فسخ کرالیا جائے - اور بعد فسخ نکاح و انقضائے عدت دوسرا نکاح کردیا جائے ۔ محمد کفایت اللہ کان اللہ لہ"
(کفایت المفتی ، کتاب الطلاق، 6/ 111، ط: دارالاشاعت)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144508101792
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن