بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قبضے کے بعد مبیع کو فروخت کرنا


سوال

نعیم چائے کی پتی کا کاروبار کرتا ہے،فاروق نے  نعیم کو کہاکہ میرے لیے جوڑیا بازار سے ڈیڑھ لاکھ روپے کی چائےکی  پتی لے کر آناہے،نعیم ڈیڑھ لاکھ کی پتی لے کر آتا ہے،فاروق  پتی  کووصول کرتا ہے،اور اس پر قبضہ کرتا ہے(یعنی پتی تین بوریوں  میں تھی،جس کی فاروق  نے گنتی کی،اور اس کو نعیم کی بوریوں سے الگ کرکے اس میں مکمل تصرف کا مالک ہو جاتا ہے)،پھرنعیم نےکہاکہ یہ پتی مجھے بیچ دوں ایک لاکھ اسی ہزار روپے کی،تو فاروق نے اس پر ایک لاکھ اسی ہزار کی بیچ دی ،کیافاروق  کےلیے 30  ہزار  کا نفع   جو نعیم  سےلیا جائز ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر نعیم یہ پتی فاروق کے لیے خریدتا ہے تو پھر  فاروق کا  پتی کو اپنے قبضے میں لے نے کےبعد نعیم کے ہاتھوں فروخت کرنا جائز ہے،اور نعیم سے 30 ہزار نفع  حاصل کرنا بھی جائز ہے، البتہ اگر فاروق صرف رقم فراہم کرے اور پتی نعیم خریدکر فاروق کو صرف اطلاع کر  دے ،فاروق اسے اپنے قبضے میں لیے بغیر نعیم کو فروخت کرے گا،تو یہ صورت ناجائز ہوگی،اور حاصل ہونے والا منافع لینا  بھی جائز نہیں ہوگا۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"وجملة الكلام فيه أن المبيع لا يخلو إما أن يكون مما له مثل، وإما أن يكون مما لا مثل له فإن كان مما لا مثل له من المذروعات، والمعدودات المتفاوتة فالتخلية فيها قبض تام بلا خلاف، حتى لو اشترى مذروعا مذارعة أو معدودا معاددة، ووجدت التخلية يخرج عن ضمان البائع، ويجوز له بيعه، والانتفاع به قبل الذرع والعد بلا خلاف، وإن كان مما له مثل فإن باعه مجازفة فكذلك؛ لأنه لا يعتبر معرفة القدر في بيع المجازفة، وإن باع مكايلة أو موازنة في المكيل والموزون....."

(كتاب البيوع، فصل في حكم البيع، ج: 5 ص: 244 ط: دار الکتب العلمیة)

فتح القدیر میں ہے:

"ومن اشترى شيئًا مما ينقل ويحول لم يجز له بيعه حتى يقبضه لأنه عليه الصلاة والسلام نهى عن بيع ما لم يقبض."

(کتاب البیوع، باب المرابحة والتولية، فصل اشترى شيئا مما ينقل ويحول، ج:6 ص: 510،511 ط: دار الفكر)

البناية شرح الهداية میں ہے:

"فصل ‌ومن ‌اشترى ‌شيئا ‌مما ‌ينقل ‌ويحول ‌لم ‌يجز ‌له بيعه حتى يقبضه؛ لأنه - عليه السلام - نهى عن‌‌ بيع ما لم يقبض: لأن فيه غرر انفساخ العقد على اعتبار الهلاك."  

(كتاب البيوع، باب المرابحة والتولية، بيع ما لم يقبض، ج: 8 ص: 3 ط: دار الکتب العلمیة)

تبين الحقائق شرح كنز الدقائق میں ہے:

 "لايجوز بيع المنقول قبل القبض:لما روينا ولقوله عليه الصلاة والسلام: «إذا ابتعت طعامًا فلاتبعه حتى تستوفيه» رواه مسلم وأحمد ولأن فيه غرر انفساخ العقد على اعتبار الهلاك قبل القبض؛ لأنه إذا هلك المبيع قبل القبض ينفسخ العقد فيتبين أنه باع ما لا يملك والغرر حرام لما روينا."

(کتاب البیوع، باب التولیة، فصل بيع العقار قبل قبضه، ج: 4 ص: 80  ط: المطبعة الكبرى الأميرية القاهرة)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144410101042

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں