بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قبضہ اور عملی تصرف کے ساتھ دی گئی زمین کا حکم


سوال

1975میں  میرے والدین  زندہ تھے اور میں والدین کا اکلوتا بیٹا تھا ، والد صاحب مرحوم دوسری شادی کرنا چاہتے تھے ، انہوں نے   مجھے اپنی  پوری زمین کا  آدھا حصہ دینے وعدہ کیا اور ایک تحریری معاہدہ بحضور گواہان کے بھی کیا  اور والدصاحب نے  اپنے  دوسرے  نکاح سے قبل بھری  محفل میں جس میں میرے والد صاحب اور  لڑکی کے دو بھائی اوردیگرافراد موجود تھے ،ان  کے سامنے اقرار کیا کہ میں نے  اپنی  ساری جائیدا د(زمین )  کا نصف حصہ اپنے بیٹے (یعنی سائل ) کو دے دیاہے اور میری  دوسری شادی سے جتنی اولاد ہوگی  جو حصہ میں نے اپنے اس بیٹے کو دیا ہے اس میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہوگا ، اور  آج سے میں اسے  آدھے حصے کا قبضہ بھی دے رہا ہوں اور میرا یہ بیٹا تمام جائیداد میں  آدھے حصے کامالک ہو گا، چونکہ میں سرکاری ملازم تھا اس لیے  میں کھیتی باڑی نہیں کرسکتاتھا تو میں نے اپنا حصہ ایک مزارع کو دیا اور مجھے اناج میں سے آدھا حصہ دیتاتھا،اور کچھ زمین ایسی تھی کہ والدصاحب نے سالانہ کے حساب سے  مزارعین کو اجارہ پر دی  تھی ،  میں اس زمین میں سے بھی جو آمدنی آتی والدصاحب کے زمانے سے  سےآج تک آدھا حصہ لیتا  چلا آرہا ہوں ،اب میرےوالد صاحب وفات پاچکے ہیں،اور میری  سوتیلی ماں کا ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے ،محکمہ مال کے ریکارڈ میں زمین کا  وہ حصہ  جو والد صاحب نے مجھے دیا تھا اور جو آدھا حصہ والد صاحب نے اپنے پاس رکھا تھا سب تینوں کے نام ہے، اب سوال یہ ہے کہ :

1۔والد صاحب نے مجھے جو حصہ باقاعدہ قبضے کے ساتھ دیا تھا اس میں میرے ان بہن بھائیوں کا حصہ بنتا ہے یا نہیں؟

 2۔ والد صاحب کی وفات کے بعد جو بقیہ زمین انہوں نے چھوڑ ی  اسلامی قوانین کے رو سے اس میں میرا حصہ بنتا ہے یا  نہیں؟

جواب

1۔اگر واقعۃً سائل کے مرحوم والد نےاپنی زندگی میں اپنی آدھی زمین سائل کو  عملاً قبضہ اور تصر ف کے ساتھ  دے دی تھی  تو مذکورہ زمین کا مالک تنہا سائل ہے ، اس میں دیگر ورثاء شریک نہیں ہوں گے  ۔

فتاوی شامی میں ہے:

 شرائط صحتها في الموهوب أن يكون ‌مقبوضاً غيرَ مشاع مميزاً غيرَ مشغول."

(کتاب الهبة،ج:5،ص:688۔687،ط:سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"لایثبت الملک للموهوب له إلا بالقبض وهو المختار، هکذا في فصول العمادیة".

(كتاب الهبة، الباب الثانی  فیما يجوز من الهبة وما لا يجوز:ج:4،ص: 378، ط: رشیدیه)

2۔صورتِ مسئولہ میں سائل کے والدصاحب نے انتقال کے بعد ترکہ میں جو زمین چھوڑی ہے اس میں دیگر ورثاء کے ساتھ سائل بھی شرعی طور پر حصہ دار ہوگا ،لیکن یہ اس صورت میں ہے جب سائل نے اپنے والد صاحب کے ساتھ  يه معاہدہ نہ کیا ہو کہ جو آدھی زمین سائل نے لی ہے اس کے بعد اس کا والدصاحب کی میراث میں مزید کوئی حصہ نہیں ہوگا ،لیکن اگر سائل نے اس طرح کا معاہد ہ کیا ہوتو اس صورت میں وہ اپناحصہ وصول کر چکا ، اس لیے بقیہ زمین  میں شرعا اس کا کوئی حصہ نہیں ہوگا ۔

فتاوی شامی میں ہے  :

"قال القهستاني: واعلم أن الناطفي ذكر عن بعض أشياخه أن المريض إذا عين لواحد من الورثة شيئا كالدار على أن لا يكون له في سائر التركة حق يجوز، وقيل هذا إذا رضي ذلك الوارث به بعد موته فحينئذ يكون تعيين الميت كتعيين باقي الورثة معه كما في الجواهر اهـ"

(كتاب الوصايا،6/ 655،ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144405100629

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں