بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

قبرستان کے احاطے میں عیدگاہ رکھنا کیسا ہے؟


سوال

 میرے گاؤں میں قبرستان اور عیدگاہ قریب قریب ہی واقع ہے،اور دونوں ہی غیر موقوفہ اور غیر مزروعہ زمین پر واقع ہے (ہمارے علاقے میں "غیر مزروعہ" وہ زمین ہے جو حکومت کی ملکیت میں ہے مگر عوام الناس صدیوں سے اس کو استعمال کر رہی ہے اور حکومت نے اسے چھوڑ دیا ہے) اب حال ہی میں قبرستان کا گھیراؤ عمل میں آیا ہے جس سے عیدگاہ کو بھی قبرستان کے گھیرے میں لے لیا گیا ہے،در اصل حال ہی میں سرکاری فنڈ سے ہمارے صوبے کے ہر قبرستان کو اینٹ کی دیوار سے گھیرنے کا کام عمل میں آیا ہے اور چونکہ ہمارے گاؤں میں قبرستان اور عیدگاہ قریب قریب ہی ہے اسی لئے قبرستان کی باؤنڈری کے اندر عیدگاہ کو بھی لے لیا گیا ہے ،میرا سوال یہ ہے کہ قبرستان کے احاطے میں عیدگاہ رکھنا کیسا ہے؟ جب کہ حال یہ ہے کہ قبرستان عیدگاہ کے سامنے یعنی مغرب کی طرف ہی واقع ہے، تو نماز کی ادائیگی کے وقت سارے مقابر سامنے ہوتے ہیں۔

جواب

 واضح رہے کہ  قبر اگر نمازی کے بالکل سامنے ہو اور درمیان میں کوئی سترہ یا دیوار وغیرہ حائل  نہ ہو تو ایسی جگہ پر نماز پڑھنا مکروہ ہے، صورتِ مسئولہ میں اگر عیدگاہ اور قبرستان کے درمیان میں کوئی سترہ یا دیواروغیرہ حائل ہوتو پھر   ایسی صورت میں مذکورہ عیدگاہ  میں نماز پڑھنا بلاکراہت جائز ہو گا، سامنے والےقبرستان  کی وجہ سے مذکورہ عیدگاہ  میں ادا کی گئی نماز پر کوئی اثر نہیں ہوگا،لیکن اگر عیدگاہ اورقبرستان کے درمیان کوئی سترہ یا دیوار وغیرہ حائل نہ ہو قبریں نمازیوں کے سامنے ہوں توپھر اس صورت میں عیدگاہ میں نماز پڑھنا مکروہ  ہو گا۔

فتاوی شامی میں ہے:   

"ولا بأس بالصلاة فيها إذا كان فيها موضع أعد للصلاة وليس فيه قبر ولا نجاسة كما في الخانية."

(كتاب الصلاة،ج:1،ص:380،ط:سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وفي الحاوي: وإن كانت القبور ‌ما ‌وراء ‌المصلي لا يكره، فإنه إن كان بينه وبين القبر مقدار ما لو كان في الصلاة ويمر إنسان لا يكره، فههنا أيضا لا يكره. كذا في التتارخانية."

(كتاب الصلاة، الباب السابع، الفصل الثاني،ج:1، ص:107،ط:رشيديه)

وفيه أیضاً:

"وتكلموا أيضا في معنى الكراهة إلى القبر، قال بعضهم: لأن فيه تشبها باليهود، وقال بعضهم: لأن في المقبرة عظام الموتى وعظام الموتى أنجاس وأرجاس، وهذا كله إذا لم يكن بين المصلي وبين هذه المواضع حائط أو سترة، أما إذا كان، لا يكره ويصير الحائط فاصلا، وإذا لم يكن بين المصلي وبين هذه المواضع سترة، فإنما يكره استقبال هذه المواضع في مسجد الجماعات، فأما في مسجد البيوت، فلا يكره، كذا في المحيط."

(كتاب الكراهية، الباب الخامس في آداب المسجد والقبلة والمصحف وما كتب فيه شيء من القرآن،ج:5، ص:320،ط:رشيديه)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144403101934

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں