بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

قدیم قبرستان میں راستہ بنانے کاحکم


سوال

کراچی کے اولڈ ایریا میں ایک قطعہ اراضی پر چار دیوار ی کے اند ر ایک قدیم قبرستان ہے ،شہر کراچی کے پرانے نقشوں میں اور گوگل میں یہ قطعہ اراضی قبرستان کے طور پر ظاہر کیاگیاہے ،نیز علاقے کے بزرگ بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ مذکورہ جگہ قبرستان کی ہے ،اور اس کے آثار بھی تھے جنہیں آہستہ آہستہ مٹادیاگیاہے ،کچھ عرصہ قبل قبرستان کی دیوار کو توڑکر راستہ بنایاگیااور اس میں جہاں قبریں تھیں وہاں پارکنگ بنالی گئی ہے ۔

دریافت طلب امر یہ ہے :

1-کیاقبروں پر (اگرچہ اس کے آثار مٹادیے گئےہوں )پارکنگ بنائی جاسکتی ہے؟

2-کیاقبروں پر چلنا،موٹر سائیکل اور گاڑی چلاناجائز ہے ؟

3-جان بوجھ کر مسلمانوں کی قبروں پر پارکنگ بنانے والے کاشرعی حکم کیاہے ؟ایسے شخص یااشخاص کے ساتھ مسلمانو ں کا کیارویہ ہوناچاہئے؟نیز ایسی صورت میں حکومت اور اس کے اداروں کاکیافرض بنتاہے ؟

جواب

اگر قبرستان موقوفہ ہو کسی کی ذاتی ملکیت نہ ہو تو اس کی زمین پر کسی کے لیے ملکیتی تصرف کرنا شرعاً جائز نہیں،  بلکہ جس مقصد کے لیے وقف ہے اسی میں استعمال کرنا لازم ہے اور اگر قبروں کے نشانات مٹ چکے ہوں اور اس میں مدفون اَموات مٹی بن چکی ہوں تو اس میں جدید اَموات کی تدفین کی جائے۔

2۔ اگر پہلے سے مٹی ہوئی قبروں کے اوپر سے راستہ بنا ہوا ہے، تو اس پر سے چلنے میں کوئی مضائقہ نہیں اور اگر پہلے سے راستہ نہیں تھاتو اب موقوفہ قبرستان کی قبروں پر راستہ بنانا درست نہیں ہوگا ، البتہ اگرگزرتے ہوئے پتہ چلے کہ نیچے قبور ہیں تو ثواب پہنچانے کے لئے کچھ آیتوں وغیرہ کی تلاوت کرتے ہوئے  گذر نے کی گنجائش ہے۔

3۔موقوفہ قبرستان مسلمانوں کی مشترکہ ملکیت ہےاس پرقبضہ کرکےاپنےذاتی تصرف میں لانا ،اس سے کمائی کرنا اجارہ کی صورت میں یہ سب شرعاًناجائز ہے ۔

فتاوی شامی میں ہے :

" وقال الزيلعي: ولو بلي الميت وصار تراباً جاز دفن غيره في قبره وزرعه والبناء عليه اهـ  قال في الإمداد ويخالفه ما في التاترخانية: إذا صار الميت تراباً في القبر يكره دفن غيره في قبره؛ لأن الحرمة باقية، وإن جمعوا عظامه في ناحية، ثم دفن غيره فيه تبركاً بالجيران الصالحين ويوجد موضع فارغ يكره ذلك اهـ قلت: لكن في هذا مشقة عظيمة، فالأولى إناطة الجواز بالبلاء إذا لايمكن أن يعد لكل ميت قبر لايدفن فيه غيره وإن صار الأول تراباً، لا سيما في الأمصار الكبيرة الجامعة، وإلا لزم أن تعم القبول السهل والوعر على أن المنع من الحفر إلى أن لايبقى عظم عسر جداً وإن أمكن ذلك لبعض الناس لكن الكلام في جعله حكماً عاماً لكل أحد، فتأمل".

(کتاب الصلوٰۃ،باب صلاۃ الجنائز،مطلب فی دفن المیت ،ج:2،ص:233،ط:سعید)

کفایت المفتی میں ہے:

’’مسجد کی طرح قبرستان میں بھی عام اموات کا بلاروک ٹوک دفن ہونا اس کے وقف ہونے کے لیے کافی ہے‘‘۔

( کتاب الوقف ،چھٹا باب،ج:7،ص:212،ط:دارالاشاعت کراچی)

امدادالفتاوی میں ہے:

’’الجواب: عام قبرستان وقف ہوتا ہے اور سوا اللہ جل شانہ کے کوئی اس کا مالک نہیں ہوتا اور جب وقف ہوا تو متولی بحیثیت قبضہ اس کا مالک نہیں بن سکتا اور اس میں کوئی تصرف مالکانہ بیع و شراء وغیرہ نہیں کرسکتا۔۔۔‘‘الخ

(کتاب الوقف،ج:2،ص:570،ط:دارالعلوم کراچی)

فتاوی شامی میں ہے:

"قلت: وفي الأحکام عن الخلاصة وغیرها: لو وجد طریقًا إن وقع في قلبه أنه محدث لایمشي علیه وإلا فلا بأس به۔ وفي خزانة الفتاوی: وعن أبي حنیفة: لایوطأ القبر الالضروۃ، ویزار من بعید و لایقعد، وإن فعل یکرہ، وقال بعضهم: لابأس بأن یطأ القبور وهو یقرأ أو یسبح أو یدعولهم۔ اٰہ وقال في الحلیة: وتکرہ الصلاۃ علیه وإلیه لو رود النهي عن ذلك؛ ثم ذکر عن الإمام الطحطاوي أنه حمل ما ورد من النهي عن الجلوس علی القبر علی الجلوس لقضاء الحاجة، وأنه لایکرہ الجلوس لغیرہ جمعًا بین الاٰثار، وأنه قال: إن ذلك قول أبي حنیفة، وأبي یوسف، ومحمد، ثم نازعه بما صرح به في النوادر والتحفة والبدائع والمحیط وغیرہ من أن أباحنیفة کرہ وطء القبر والقعود أو النوم أو قضاء الحاجة علیه، وبأنه ثبت النهي عن وطئه والمشي علیه، وتمامه فیها، وقید في نور الإیضاع کراهة القعود علی القبر بما إذا کان لغیر قراء ۃ."

( کتاب الجنائز،ج:2،ص:245،ط:سعید)

فتاوی عالمگیریہ میں ہے:

"وسئل هو أیضًا عن المقبرۃ في القریٰ إذا اندرست، ولم یبق أثر الموتیٰ، لا العظم ولا غیرہ: هل یجوز زرعها واستغلالها؟ قال: لا، ولها حکم المقبرۃ."

(كتاب الوقف،الباب الثاني عشر في الرباطات والمقابر والخانات والحياض،ج:2،ص:470،ط:دارالفكر بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144312100096

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں