بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قبر پر پودے لگانا کیسا ہے؟


سوال

قبر پر پودے لگانا کیسا ہے؟

جواب

قبروں پر پودے لگانا یا پھول ڈالنا شرعاً  ثابت نہیں، رسول اللہ ﷺنے دو قبروں پر تر ٹہنی اپنے دستِ اقدس سے گاڑھی تھی، یہ آپ کی خصوصیت تھی، چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺکا دو قبروں پر گزر ہوا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ان دونوں مردوں کو عذاب ہورہا ہے،  پھر آپ ﷺ نے کھجور کے درخت کی ایک تر شاخ لے کر اسے درمیان سے چیر کر دو حصہ کردیا، پھر ایک حصہ ایک قبر پر اور دوسرا حصہ دوسری قبر پر گاڑ دیا، لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ!  یہ آپ نے کس مصلحت سے کیا ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ  امید ہے کہ جب تک یہ خشک نہ ہوں، ان سے عذاب ہلکا ہو جاوے۔(مشکاۃ)

شارحینِ حدیث نے اس حدیث کے متعلق فرمایا ہے کہ یہ عمل صرف حضور ﷺ کے ساتھ خاص تھا؛ کیوں کہ آپ ﷺ کو بذریعہ وحی ان مردوں کے عذاب میں مبتلا ہونے کی خبر دی گئی تھی، اور یہ بھی بتایا گیا تھا کہ آپ ﷺ کے اس طرح ٹہنی لگانے سے ان کے عذاب میں تخفیف کردی جائے گی، اسی لیے آپ ﷺ نے یہ عمل صرف ان ہی دو مردوں کی قبر کے ساتھ کیا تھا، عمومی طور سے آپ ﷺ کا معمول قبروں پر ٹہنی گاڑنے کا نہیں تھا، رسول اللہ ﷺ کے بعد تو کسی کو بذریعہ وحی یہ بات معلوم نہیں ہوسکتی ہے کہ کس قبر والے کو عذاب ہورہا ہے اور کس کو نہیں، اسی وجہ سے رسول اللہ ﷺ کے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بھی آپ ﷺ کے بعد  اس عمل کو اپنا معمول نہیں بنایا۔

لہٰذا قبروں کی مٹی پر باقاعدہ پودے لگانے یاپھول ڈالنے کی  شریعتِ مطہرہ میں کوئی حیثیت نہیں ہے اور یہ عمل رسول اللہ ﷺ کے دو معذب (عذاب میں مبتلا) لوگوں کی قبروں پر ٹہنی لگانے کی طرح نہیں ہے، اس لیے اس سے اجتناب کرنا چاہیے ، البتہ قبر پر اگر گھاس اُگ آئے تو خودرو ہری گھاس کی تسبیح سے میت کو انس ہوتا ہے،اور اس کی تسبیح کی برکت سے اللہ پاک کی خاص رحمت نازل ہوتی ہے،   پس اس کو نہ کاٹنا چاہیے ، کیوں کہ اس کو کاٹنا گویا کہ میت کا حق فوت کردینا ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"يكره أيضا ‌قطع ‌النبات الرطب والحشيش من المقبرة دون اليابس كما في البحر والدرر وشرح المنية وعلله في الإمداد بأنه ما دام رطبا يسبح الله - تعالى - فيؤنس الميت وتنزل بذكره الرحمة اهـ ونحوه في الخانية.

أقول: ودليله ما ورد في الحديث «من وضعه عليه الصلاة والسلام الجريدة الخضراء بعد شقها نصفين على القبرين اللذين يعذبان» . وتعليله بالتخفيف عنهما ما لم ييبسا: أي يخفف عنهما ببركة تسبيحهما؛ إذ هو أكمل من تسبيح اليابس لما في الأخضر من نوع حياة؛ وعليه فكراهة قطع ذلك، وإن نبت بنفسه ولم يملك لأن فيه تفويت حق الميت. ويؤخذ من ذلك ومن الحديث ندب وضع ذلك للاتباع ويقاس عليه ما اعتيد في زماننا من وضع أغصان الآس ونحوه، وصرح بذلك أيضا جماعة من الشافعية، وهذا أولى مما قال بعض المالكية من أن التخفيف عن القبرين إنما حصل ببركة يده الشريفة صلى الله عليه وسلم أو دعائه لهما فلا يقاس عليه غيره. وقد ذكر البخاري في صحيحه أن بريدة بن الحصيب رضي الله عنه أوصى بأن يجعل في قبره جريدتان، والله تعالى أعلم."

(کتاب الصلوۃ،تتمة قطع النبات الرطب والحشيش من المقبرة دون اليابس،ج:2،ص:245،ط:دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144505101301

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں