بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 ذو القعدة 1445ھ 14 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

قبائلی رہنماؤں کو طلاق تفویض کرنے کا حکم


سوال

ایک شخص نے اپنی بیوی پر سیاہ کاری(بدکاری) کا الزام لگایا  اور  اس کے بعد عورت کے ورثا ء اور شوہر نے قبائلی رہنماؤں کو فیصلہ کرنے کا اختیار دیا کہ چاہے وہ عورت کو آزاد کر لیں یا جیسا بھی کرلیں، دونوں کی طرف سے فیصلہ منظور ہوگا۔

    قبائلی رہنماؤں نے بیوی اور سیاہ کار دونوں پر بھاری رقم ڈال دیا اور عورت کو خاوند سے آزاد کر دیا ۔

کیا اب قبائلی رہنماؤں کا آزاد کر نا طلاق واقع ہوئی یا نہیں ؟یا بیوی شوہر سے دوبارہ طلاق کا مطالبہ کر ے گی؟ اگر طلاق کا دوبارہ مطالبہ کر ے گی تو شوہر ضد کی وجہ سے طلاق نہیں دےگا۔

جواب

واضح رہے کہ اگر کوئی شخص کسی اجنبی کو اپنی بیوی کو طلاق دینے کا وکیل بنائے تو اس صورت  میں اس اجنبی  کے طلاق دینےسے موکل کی بیوی پر طلاق واقع ہوجاتی ہیں۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً مذکورہ شخص نے  قبائلی رہنماؤں کو فیصلہ کرنےکا اختیار دیا کہ"چاہے وہ آزاد کرلیں یا جیسا بھی کرلیں" تو اس صورت میں قبائلی رہنماؤں کا مذکورہ شخص کی بیوی کو آزاد کرنے سے وہ آزاد ہوجائے گی اور اس پر ایک طلاقِ بائنہ واقع ہوجائےگی، اور میاں بیوی دونوں کا نکاح ختم ہوجائے گا،بیوی پر عدت (تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو اور حمل ہونے کی صورت میں وضع حمل تک)لازم ہے، عدت کے بعداسے دوسری جگہ نکاح کرنے کا اختیار حاصل ہوگا،اس کے بعد شوہر سے دوبارہ طلاق کے مطالبے کی ضرورت نہیں ہے۔

نیز قبائلی رہنماؤں کا مذکورہ شخص کی بیوی اور تہمت والے لڑکے پر  جرمانہ لگانا شرعاً ناجائز ہے، شریعت میں مالی جرمانہ عائد کرنا جائز نہیں ہے۔

المحیط البرھانی میں ہے:

"وفي «المنتقى» : إذا قال لغيره: طلق امرأتي فقد جعلت أمرها بيدك فهذا وكيل يطلق في المجلس وغيره، والطلاق رجعي. ولو قال: جعلت أمرها بيدك فطلقها، فهذا على المجلس، والطلاق بائن۔"

(کتاب الطلاق، الفصل الخامس فی الکنایات، ج:3، ص:248، ط:دارالکتب العلمیہ)

فتاوی شامی میں ہے:

''وفي شرح الآثار : التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ .والحاصل أن المذهب عدم التعزير بأخذ المال''۔

(کتاب الحدود، باب التعزیر، ج:4،ص:61،ط:سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"( أنت حرة) أي لبراءتك من الرق أو من رق النكاح وأعتقتك مثل أنت حرة كما في الفتح، وكذا كوني حرة أو اعتقي كما في البدائع نهر۔"

(ردالمحتار علی الدر المختار، باب الکنایات، ج:3،ص:300،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307102222

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں