بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قرض خواہ کا مقروض کا جنازہ پڑھنے اور دعائے مغفرت کرنے سے حقِ قرض ساقط نہیں ہوگا


سوال

ہم جو دعا  نمازِجنازہ میں میت کے لیے پڑھتے ہیں، یعنی اللھم اغفرلحینا ..الخ ، اگر کسی شخص کا اس میت پر قرضہ ہو یا اور کوئی حق ہو ، اور قرض دینے والا میت کے پیچھے اس کے لیے یہ دعا پڑھے ، تو کیا یہ دعا پڑھنے سے  اس کے قرض سے، یا اور کوئی حق ہو تو اس سے میت کا ذمہ فارغ ہو گا یا نہیں ؟ کیوں کہ یہی قرض دینے والا یا جس کا میت پر کسی قسم کا حق ہو، وہ میت کے پیچھے اس طرح (یعنیاللھم اغفر لحیناوالی دعا پڑھ کر) اس کے لیے بخشش کی دعا کررہا ہے  ؟

جواب

واضح رہے کہ حقوق العباد سے ذمہ کے فارغ ہونے کی دو ہی صورتیں ہیں، وہ یہ کہ جو قرض وغیرہ لیا ہے وہ قرض خواہ کو ادا کرےیا قرض خواہ اس کو معاف کر دے، اور متعدد روایات میں آیا ہے کہ حضورﷺ ابتداء میں مقروض  کی نمازِ جنازہ  پڑھنے سے  انکار فرمادیتے تھے،  جو  اس بات کی دلیل ہے کہ میت کا جنازہ پڑھنے  اور  اس کے لیے دعائے مغفرت کرنے سے حقوق العباد معاف نہیں ہوں گے،لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ شخص نے اپنا قرضہ معاف کر دیا تو میت کا ذمہ ساقط ہوجائےگا، وگرنہ صرف میت کا جنازہ پڑھنے سے  اورمغفرت کے دعا کرنے کی وجہ سے جنازہ پڑھنے والے کاحق(قرض) ساقط نہیں ہوگا۔

البتہ اگر میت نے اتنا مال نہیں چھوڑا ہے جس سے میت کا قرضہ ادا ہوتو قرض خواہ کے لیے مناسب یہی ہے کہ معاف کر دے تاکہ میت عند اللہ ماخوذ نہ ہو، اور معاف کرنے والا عنداللہ ماجور ہوگا۔

’’مجلۃ الاحکام العدلیۃ ‘‘میں ہے:

"المادة (1569) :" يصح إبراء الميت من دينه." 

(الكتاب الثاني عشر: الصلح و الإبراء، الباب الرابع، الفصل الثاني، ص:306، ط: كراچي)

 

بخاری شریف میں ہے:

"عن سلمة بن الأكوع، رضي الله عنه، قال : كنا جلوسًا عند النبي صلى الله عليه وسلم، إذ أتي بجنازة، فقالوا: صل عليها، فقال: هل عليه دين؟ قالوا: لا، قال: فهل ترك شيئًا؟ قالوا: لا، فصلى عليه، ثم أتي بجنازة أخرى، فقالوا: يا رسول الله، صل عليها، قال: هل عليه دين؟ قيل: نعم، قال: فهل ترك شيئًا؟ قالوا: ثلاثة دنانير، فصلى عليها، ثم أتي بالثالثة، فقالوا: صل عليها، قال: هل ترك شيئًا؟ قالوا: لا، قال: فهل عليه دين؟ قالوا: ثلاثة دنانير، قال: صلوا على صاحبكم، قال أبو قتادة: صل عليه يا رسول الله، وعلي دينه، فصلى عليه."

(رقم الحدیث:2298، ج: 3، ص: 124، ط: دارالشعب القاھرۃ)

 

الدر المختار میں ہے:

"هل الحج يكفر الكبائر؟ قيل نعم كحربي أسلم، وقيل غير المتعلقة بالآدمي كذمي أسلم. وقال عياض: أجمع أهل السنة أن الكبائر لا يكفرها إلا التوبة، ولا قائل بسقوط الدين ولو حقا لله تعالى كدين صلاة وزكاة، نعم إثم المطل وتأخير الصلاة ونحوها يسقط، وهذا معنى التكفير على القول به، وحديث ابن ماجه «أنه - عليه الصلاة والسلام - استجيب له حتى في الدماء والمظالم»....   

وفي الرد:وبهذا ظهر أن قول الشارح كحربي أسلم في غير محله لاقتضائه كما قال ح سقوط نفس الحق ولا قائل به كما علمته بل هذا الحكم يخص الحربي كما مر عن الأكمل. قلت: قد يقال بسقوط نفس الحق إذا مات قبل المقدرة على أدائه سواء كان حق الله تعالى أو حق عباده، وليس في تركته ما يفي به لأنه إذا سقط إثم التأخير ولم يتحقق منه إثم بعده فلا مانع من سقوط نفس الحق، أما حق الله تعالى فظاهر، وأما حق العبد فالله تعالى يرضي خصمه عنه كما مر في الحديث. والظاهر أن هذا هو مراد القائلين بتكفير المظالم أيضا وإلا لم يبق للقول بتكفيرها محل، على أن نفس مطل الدين حق عبد أيضا لأن فيه جناية عليه بتأخير حقه عنه، فحيث قالوا بسقوطه فليسقط نفس الدين أيضا عند العجز كما تقدم عن عياض، لكن تقييد عياض بالتوبة والعجز غير ظاهر لأن التوبة مكفرة بنفسها وهي إنما تسقط حق الله تعالى لا حق العبد، فتعين كون المسقط هو الحج كما اقتضته الأحاديث المارة؛ أما أنه لا قائل بسقوط الدين فنقول: نعم ذلك عند القدرة عليه بعد الحج. وعليه يحمل كلام الشارحين المار. وحينئذ صح قول الشارح كحربي أسلم بهذا الاعتبار فافهم. ثم اعلم أن تجويزهم تكفير الكبائر بالهجرة والحج مناف لنقل عياض الإجماع على أنه لا يكفرها إلا التوبة ولا سيما على القول بتكفير المظالم أيضا، بل القول بتكفير إثم المطل وتأخير الصلاة ينافيه لأنه كبيرة وقد كفرها الحج بلا توبة."

(كتاب الحج، فروع في الحج،مطلب في تكفير الحج الكبائر، 624،622/2، سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144503100207

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں