بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قزع کا حکم


سوال

الحدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے قزع سے منع فرمایا تھا،  قزع سے کیا مراد ہے؟ اس کی مکمل وضاحت  درکار ہے۔

جواب

سر کے کچھ بال کاٹنا اور کچھ چھوڑدینا منع ہے، اسے حدیث میں ’’قزع‘‘ سے تعبیر کرکے اس کی ممانعت کی گئی ہے، اور "قزع" کی مختلف صورتیں ہیں، حاصل ان کا یہی ہے کہ سر کے بال کہیں سے کاٹے جائیں اور کہیں سے چھوڑدیے جائیں۔

سر کے بالوں کے بارے میں شرعی حکم یہ ہے کہ یا تو سر کے پورے بال رکھے جائیں یا پورے کاٹے جائیں ۔

البتہ  بالوں کی تحدید کے لیے گدی سے بال کاٹے جائیں یا حلق کیا جائے تو یہ اس ممانعت میں داخل نہیں ہے، اسی طرح کان کے اطراف کے بال جو کان پر لگ رہے ہوں، انہیں برابر کرنے کے لیے اطراف سے معمولی بال کاٹ لینا جیسا کہ عام طور پر اس کا معمول ہے کہ سر کے بالوں کو متعین کرنے اور اس کو دوسرے سے جدا کرنے کے لیے کان کے اوپر بلیڈ لگاتے ہیں تو اس کی گنجائش ہے۔ تاہم یہ خیال رہے کہ زیادہ اوپر سے بلیڈ نہ لگایا جائے ورنہ ”قزع“ میں داخل ہوگا، حاصل یہ ہے کہ سر کے اطراف کے بال اگر اس طرح کاٹے جائیں کہ ان کی وجہ سے سر کے اس حصہ کے بال کم اور باقی سر کے بال بڑے ہوں تو یہ درست نہیں ہے، اور اگر سر کے تمام بالوں برابر ہوں اور اطراف سے تحدید کے لیے انہیں برابر کیا جائے تو یہ جائز ہے۔

مشکوۃ المصابیح کی روایت میں ہے :

"وعن نافع عن ابن عمر قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم ينهى عن ‌القزع. قيل لنافع: ما ‌القزع؟ قال: يحلق بعض رأس الصبي ويترك البعض

وألحق بعضهم التفسير بالحديث."

(‌‌‌‌كتاب اللباس، باب الترجل، الفصل الأول،رقم الحدىث، ج:  2، ص 1262، ط: المكتب الإسلامي )

’’حضرت نافع، حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا: میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’قزع‘‘سے منع فرماتے ہوئے سنا، حضرت نافع سے پوچھا گیا کہ قزع کیا ہے؟ تو انہوں نے کہا (قزع اس کو کہتے ہیں کہ ) لڑکے کے سر کے بعض حصہ کو مونڈا جائے اور بعض حصے کو چھوڑ دیا جائے ۔ (بخاری ومسلم ) اور بعض راویوں نے وضاحت کو حدیث کے ساتھ جوڑا ہے یعنی راوی کے مطابق، قزع کے یہ معنی آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی نے بیان فرمائے ‘‘۔

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"يكره القزع، وهو أن يحلق البعض ويترك البعض قطعاً مقدار ثلاثة أصابع، كذا في الغرائب".

(كتاب الكراهية، الباب التاسع عشر في الختان والخصاء وحلق المرأة شعرها ووصلها شعر غيرها، ج: 5، ص: 357، ط: دارالفكر)

حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح میں ہے:

"وأما حلق الرأس ففي التتارخانية عن الطحاوي: أنه سن عند أئمتنا الثلاثة اهـ وفي روضة الزند ويستى: السنة في شعر الرأس أما الفرق وأما الحلق اهـ يعني حلق الكل إن أراد التنظيف، أو ترك الكل ليدهنه ويرجله ويفرقه؛ لما في أبي داود والنسائي عن ابن عمران أن رسول الله صلى الله عليه وسلم رأى صبياً حلق بعض رأسه وترك بعضه فقال صلى الله عليه وسلم: "احلقوه كله أو اتركوه كله". وفي الغرائب: يستحب حلق الشعر في كل جمعة".

(‌‌باب الجمعة، ص: 525، ‌‌كتاب الصلاة، ط: دار الكتب العلمية بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144504101941

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں