بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

قضاءِ عمری کی شرعی حیثیت


سوال

قضاءِ عمری  کی کیا حیثیت  ہے؟

کیا قضاء عمری اسلام میں جائز ہے؟

کیا اس کے متعلق دلائل ہیں؟

جواب

1 : واضح رہے کہ جو نمازیں قضا  ہوگئی ہوں، ان کی ادائیگی بھی ضروری ہے، خواہ وہ کئی مہینے یا کئی سالوں کی ہوں، ان ہی فوت شدہ نمازوں کی قضا پڑھنے کو ہمارے عرف میں قضاءِ عمری کہا جاتا ہے، یعنی پچھلی زندگی میں جتنی بھی نمازیں بیماری یا غفلت یا کسی اور  وجہ سے چھوٹ گئی ہوں ان سب کی قضا پڑھنا قضاءِ عمری کہلاتا ہے، قضا نماز کی نیت  میں ضروری ہے کہ جس نماز کی قضا پڑھی جا رہی ہے، اس کی مکمل تعیین  کی جائے یعنی فلاں دن کی فلاں نماز کی قضا پڑھ رہا ہوں، مثلاً   پچھلے جمعہ کے دن کی فجر کی نماز کی قضا پڑھ رہا ہوں، لہٰذا اگر متعینہ طور پر قضا نمازوں کی تعداد اور اوقات کا علم ہو تو متعینہ طور پر نیت کرکے ایک ایک کرکے نماز قضا کرلی جائے، البتہ اگر متعینہ طور پر قضا نماز کا دن اور  وقت معلوم نہ ہو نے کی  وجہ سے اس طرح متعین کرنا مشکل ہو تو اس طرح بھی نیت کی جاسکتی ہے کہ مثلًا جتنی فجر  کی نمازیں مجھ سے قضا  ہوئی ہیں ان میں سے پہلی  فجر کی نماز ادا کر رہا ہوں یا مثلًا جتنی ظہر کی نمازیں قضا ہوئی ہیں ان میں سے پہلی ظہر کی نماز ادا کر رہا ہوں، اسی طرح بقیہ نمازوں میں بھی نیت کریں ، اسی طرح پہلی کے بجائے اگر آخری کی نیت کرے تو بھی درست ہے،  یعنی جتنی فجر کی نمازیں قضا ہوئی ہیں ان میں سے آخری فجر کی نماز پڑھ رہا ہوں؛ لہٰذا اگر کئی نمازیں قضا ہوں اور ان کی تعداد اور اوقات معلوم نہ ہوں تو  اندازہ کرکے غالب گمان کے مطابق ایک تعداد مقرر کرلیجیے، اور مذکورہ طریقے کے مطابق نمازیں قضا کرنا شروع کردیجیے۔

ایک دن کی تمام فوت شدہ نمازیں یا کئی دن کی فوت شدہ نمازیں ایک وقت میں پڑھ لیں، یہ بھی درست ہے۔ نیزایک آسان صورت فوت شدہ نمازوں کی ادائیگی کی یہ بھی ہے کہ ہر وقتی فرض نمازکے ساتھ اس وقت کی قضا نمازوں میں سے ایک پڑھ لیاکریں، (مثلاً: فجر کی وقتی فرض نماز ادا کرنے کے ساتھ قضا نمازوں میں سے فجر کی نماز بھی پڑھ لیں، ظہر کی وقتی نماز کے ساتھ ظہر کی ایک قضا نماز پڑھ لیا کریں)،  جتنے برس یاجتنے مہینوں کی نمازیں قضاہوئی ہیں، اتنے سال یامہینوں تک اداکرتے رہیں، جتنی قضا نمازیں پڑھتے جائیں اُنہیں لکھے ہوئے ریکارڈ میں سے کاٹتے جائیں، اِس سے ان شاء اللہ مہینہ میں ایک مہینہ کی اور سال میں ایک سال کی قضا نمازوں کی ادائیگی بڑی آسانی کے ساتھ  ہوجائے گی ۔ 

2 :اصول یہ ہے کہ ہروہ نماز جو کسی وقت میں واجب ہونے کے بعد چھوٹ گئی ہو اس کی قضا بہرحال لازم ہے چاہے انسان نے جان بوجھ کر چھوڑی ہو یا بھول کر اور چاہے نیند کی وجہ سے یا کسی اور وجہ سے اور چاہے چھوٹی ہوئی نمازیں کم ہوں یا زیادہ ۔

3:   قرآن وحدیث سے یہ بات ثابت ہے کہ مسلمان کو اپنے تمام فوت شدہ نمازوں ،اور عمرہ  کی قضا کرنی چاہیے۔

 احادیث مبارکہ میں واضح طور پر یہ اصول بیان کردیا گیا ہے کہ جس شخص کی نماز غفلت یا سونے وغیرہ کی وجہ سے چھوٹ جائے تو تنبہ ہونے پر اس کی قضا کرے۔
نیز ان احادیث مبارکہ میں آخر میں قرآن مجید کی آیت ذکر کرکے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اس بات کی طرف اشارہ فرمادیا کہ یہ آیت غفلت کی وجہ سے فوت شدہ نمازوں کی قضا کو بھی شامل ہے کہ یاد آنے پر ان نمازوں اور عمرہ  کی قضا کی جائے گی، محض توبہ واستغفار کافی نہیں ہے۔
اسی طرح جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اپنے عمل سے بھی اس بات کی تعلیم دی ہے کہ نماز قضا ہوجانے کے بعد اس کی ادائیگی ضروری ہے، محض توبہ واستغفار اور ندامت کافی نہیں ہے۔ چنانچہ احادیث مبارکہ میں یہ واقعہ تفصیل سے ملتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ خندق کے موقع پر فوت شدہ تمام نمازوں کی قضا فرمائی ،اور اسی طر ح جناب  رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم )عمرۃ القضاء کی بھی  قضا فر مائی اس کے علاوہ احادیث مبارکہ میں ایک دوسرا واقعہ بھی مذکور ہے، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عملاً فوت شدہ نماز قضا کرنے کی اہمیت کی طرف اشارہ کیا ہے۔

چونکہ حدیبیہ کے صلح نامہ میں ایک دفعہ یہ بھی تھی کہ آئندہ سال حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم مکہ آکر عمرہ ادا کریں گے اور تین دن مکہ میں ٹھہریں گے۔ اس دفعہ کے مطابق ماہ ذوالقعد۔ہ ۷ ۔ھ میں آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے عمرہ ادا کرنے کے لئے مکہ روانہ ہونے کاعزم فرمایا اور اعلان کرا دیا کہ جو لوگ گزشتہ سال حدیبیہ میں شریک تھے وہ سب میرے ساتھ چلیں ۔ چنانچہ بجز ان لوگوں کے جو جنگ خیبر میں شہید یا وفات پاچکے تھے سب نے یہ سعادت حاصل کی۔

قضا نمازوں اور عمرہ   کی ادائیگی سے متعلق یہ موقف صرف امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک ہی نہیں؛ بلکہ امام شافعی رحمہ اللہ، امام مالک رحمہ اللہ اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا بھی یہی موقف ہے، بلکہ علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس موقف کو جمہور علمائے کرام کا موقف قرار دیا ہے۔

مسند الامام الشافعی ۔رحمہ اللہ تعالی۔میں ہے:

"(أخبرنا) : سعيد بن سالم، عن عبيد الله بن عمر، عن نافع، عن ابن عمر:أنه كان يرمل من الحجر إلى الحجر، ثم يقول: هكذا فعل رسول الله صلى الله عليه وسلم (فيه أن الرمل يبدأ كل طوف منه الحجر الأسود وينتهي إليه وأما حديث ابن عباس المذكور في مسلم وفيه قال: وأمرهم النبي صلى الله عليه وسلم أن يرملوا ثلاثة أشواط ويمشوا ما بين الركنين فمنسوخ بما معنا لأن حديث ابن عباس كان في ‌عمرة ‌القضاء سنة سبع وكانفي المسلمين ضعف في أبدانهم وإنما رملوا إظهارا للقوة واحتاجوا إلى ذلك ما بين الركنين اليمانيين لأن المشركين كانوا جلوسا في الحجر وكانوا لا يرونهم بين هذين الركنين ويرونهم فيما سوى ذلك فلما حج النبي صلى الله عليه وسلم حجة الوداع سنة عشر رمل من الحجر إلى الحجر فنسخ هذا ما تقدمه)."

(كتاب الحج،‌‌الباب السادس فيما يلزم الحاج بعد دخول مكة إلى فراغه من مناسكه،٣٤٢/١،ط: دار الكتب)

صحح بخاری میں ہے:

"حدثنا أبو نعيم، وموسى بن إسماعيل قالا: حدثنا همام، عن قتادة، عن أنس، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:(‌من ‌نسي ‌صلاة فليصل إذا ذكرها، لا كفارة لها إلا ذلك: {وأقم الصلاة لذكري}."

(باب: من نسي الصلاة فليصل إذا ذكرها، ولا يعيد إلا تلك الصلاة،٢١٥/١،ط: دار ابن كثير)

فیہ ایضا:

"حدثنا مسدد، قال: حدثنا يحيى القطان، أخبرنا هشام، قال: حدثنا يحيى هو ابن أبي كثير، عن أبي سلمة، عن جابر بن عبد الله، قال: " جعل عمر يوم الخندق يسب كفارهم، وقال: ما كدت أصلي العصر حتى غربت، قال: فنزلنا بطحان، فصلى بعد ما غربت الشمس، ثم صلى المغرب ".

(باب قضاء الصلاة الأولى فالأولى، ٢١٥/١،ط: دار ابن كثير)

صحیح مسلم میں ہے:

"وحدثنا نصر بن علي الجهضمي، حدثني أبي، حدثنا المثنى، عن قتادة، عن أنس بن مالك، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا رقد أحدكم عن الصلاة، أو غفل عنها، فليصلها إذا ذكرها»، فإن الله يقول: {أقم الصلاة لذكري} [طه: 14]."

(كتاب المساجد ومواضع الصلاة،باب قضاء الصلاة الفائتة ،٤٧٧/١ ط: دار الکتب)

سنن ابی داود میں ہے:

"عن عمرو بن ميمون سمعت أبا حاضر الحميري يحدث أبي ميمون بن مهران قال: خرجت معتمرا عام حاصر أهل الشام ابن الزبير بمكة، وبعث معي رجال من قومي بهدي، فلما انتهينا إلى أهل الشام منعونا أن ندخل الحرم، فنحرت الهدي مكاني، ثم أحللت، ثم رجعت، فلما كان من العام المقبل، خرجت لأقضي عمرتي، فأتيت ابن عباس فسألته، فقال: أبدل الهدي؛ فإن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - أمر أصحابه أن يبدلوا الهدي الذي نحروا عام الحديبية في ‌عمرة ‌القضاء."

(كتاب المناسك،باب الإحصار،٢٥٥/٣،ط:دار الرسالة العالمية)

البحر الرائق میں ہے:

"فالأصل فیه أن کل صلاة فاتت عن الوقت بعد ثبوت وجوبها فیه فإنه یلزم قضاؤها، سواء ترکها عمداً أو سهواً أو بسبب نوم، وسواء کانت الفوائت قلیلةً أو کثیرةً".

(كتاب الصلاة ،باب قضاء الفوائت،١٤١/٢،ط: ‌‌(كتاب الصلاة) 

فتاوی شامی میں ہے :

"كثرت الفوائت نوى أول ظهر عليه أو آخره.(قوله: كثرت الفوائت إلخ) مثاله: لو فاته صلاة الخميس والجمعة والسبت فإذا قضاها لا بد من التعيين، لأن فجر الخميس مثلاً غير فجر الجمعة، فإن أراد تسهيل الأمر، يقول: أول فجر مثلاً، فإنه إذا صلاه يصير ما يليه أولاً، أو يقول: آخر فجر، فإن ما قبله يصير آخراً، و لايضره عكس الترتيب؛ لسقوطه بكثرة الفوائت". 

(‌‌كتاب الصلاة،‌‌باب قضاء الفوائت،فروع في قضاء الفوائت،٧٦/٢،ط:سعيد)

مزید تفصیلی بحث اور دلائل کے لیے، دیکھئے فقہی مقالات حصہ ۴مقالہ بعنوان: قضائے عمری کی حقیقت۔

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144411101753

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں