بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

6 جمادى الاخرى 1446ھ 09 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

قضاءنمازوں اورروزوں کافدیہ


سوال

میری والدہ مرحومہ کاانتقال ہوگیاہے،ان کی نماز ،روزےجوقضاءہوئے ہیں،ان کےبارےمیں معلوم کرناہے،یعنی میری والدہ مرحومہ نےپندرہ سال کےروزےبیماری کی وجہ سے نہیں رکھےہیں،اوردس سال کی تقریباًنمازیں نہیں پڑھی ہیں ،کیوں کہ وہ بہت سخت بیمارتھیں۔

1:۔اب سوال یہ ہے کہ ان روزوں اورنمازوں کافدیہ اداکرناضروری ہےیانہیں؟

2:۔اوراگرضروری ہے توکتنافدیہ اداکرناضروری ہے؟

جواب

صورت مسئولہ میں اگرمرحومہ والدہ نےاپنی قضاء نمازوں اورروزوں کےفدیہ اداکرنےکی وصیت کی تھی تواس صورت میں ان کےترکہ کےایک تہائی حصہ سےان فوت شدہ نمازوں اورروزوں کافدیہ اداکیاجائےگا،اگران تمام قضاءشدہ نمازوں اورروزوں کافدیہ اس ایک تہائی ترکہ میں سے اداہوجائےتوبہترہے،اوراگرمکمل ادانہ ہوتوبقیہ نمازوں اورروزوں کافدیہ اداکرناورثاءکےذمہ لازم نہیں ہوگا،تاہم اگروہ بطورتبرع اوراحسان مرحومہ والدہ کی بقیہ فوت شدہ نمازاورروزوں کی طرف سے فدیہ دیناچاہےتودےسکتےہیں،اوراگرمرحومہ نےفدیہ اداکرنےکی وصیت نہیں کی توشرعاًورثاءپران کی نمازوں اورروزوں کافدیہ اداکرنالازم نہیں ،البتہ اگرورثاءاپنی خوشی اورباہمی رضامندی سےیاکوئی وارث اپنی رضامندی سےان کی طرف سے فدیہ اداکریں توامیدہےکہ عنداللہ مقبول ہوکرمرحومہ آخرت کي بازپرس سےمحفوظ ہوں گی۔

ایک نمازکافدیہ ایک صدقہ فطرکےبرابرہے،اسی طرح ایک روزہ کافدیہ بھی ایک صدقہ فطرکےبرابرہےجوکہ گندم کےحساب سےتقربیاًپونےدوکلوگندم یااس کاآٹایااس کی موجودہ قیمت ہے،یہ فدیہ مستحق زکوٰۃ شخص کواداکیاجائےگا۔

فتای شامی میں ہے:

"ولو مات وعليه صلوات فائتة وأوصى بالكفارة يعطى لكل صلاة نصف صاع من بر) كالفطرة (وكذا حكم الوتر) والصوم، وإنما يعطي (من ثلث ماله)."

(كتاب الصلاة، ‌‌باب إدراك الفريضة، ج:2، ص:73، ط:سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144603102589

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں