بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قضا نمازوں کے اوقات


سوال

قضا نمازوں کے اوقات کیا ہیں؟

جواب

بصورتِ مسئولہ درج ذیل تین اوقات میں قضا سمیت کوئی بھی نماز پڑھنا منع ہے:

1- سورج طلوع ہونے سے لے کر اس کے ایک نیزے کے بقدر بلند ہونے تک، یعنی عین سورج طلوع ہوتے وقت اور اس کے بعد کم از کم دس منٹ۔

2- استواءِ شمس کے وقت، یعنی جب سورج بالکل سر پر آجائے، ویسے تو یہ وقت ایک آدھ منٹ ہی ہوتاہے، لیکن احتیاطًا اس سے پانچ منٹ پہلے اور پانچ منٹ بعد بھی نماز پڑھنے کی اجازت نہیں ہے، یعنی نمازوں کے اوقات کے نقشوں میں جو زوال کا وقت لکھا ہوتاہے، اس وقت میں نماز پڑھنا ممنوع ہے۔

3- سورج غروب ہونے سے پہلے جب زرد ہوجاتاہے، اس وقت سے لے کر سورج غروب ہوجانے تک۔

فجر کے بعد طلوعِ آفتاب سے پہلے اور عصر کے بعد سورج زرد ہونے سے پہلے کے وقت میں قضا نمازیں پڑھنا جائز ہے، البتہ ان دونوں اوقات میں چوں کہ نوافل پڑھنا منع ہے، اس لیے ان دو اوقات میں قضا نمازیں عام جگہوں (مسجد وغیرہ) میں لوگوں کے سامنے پڑھنے کے بجائے گھر میں یا   تنہائی میں پڑھنا چاہیے، تاکہ فرض نمازوں  کے قضا کرنے کا گناہ لوگوں کے سامنے ظاہر نہ ہو؛ کیوں کہ شریعت میں اپنے گناہوں کا اظہار  بھی منع ہے۔ 

نیز  قضا نماز کا حکم یہ ہے کہ جیسے ہی قضا ہو اور یاد آئے فوری ادا کی جائے، اور اگر کوئی صاحبِ ترتیب ہو  یعنی اس سے پہلے اس کی کوئی اور نماز قضا نہ ہوئی ہو  یا قضا نمازوں کی تعداد چھ سے کم کم ہو، تو  اسے پہلے قضا نماز پڑھنی چاہیے، پھر وقتی فرض نماز ادا کرے، اگر اس نے کسی عذر کے بغیر وقتی نماز  قضا نماز سے پہلے پڑھی تو  اس کی وہ نماز اس وقت  تک نہ ہوگی  جب تک کہ وہ پہلی  نماز نہ پڑھ لے۔

عذر سے مراد یہ ہے کہ قضا شدہ نماز یاد ہی نہ رہے، یا موجودہ نماز کا وقت نکل رہا ہو، یا قضا نمازوں کی تعداد 6 یا اس سے زیادہ ہو تو  پھر اس کی نماز بلا ترتیب بھی ہو جائے گی۔

لہٰذا اگر کسی کے ذمے چھ سے کم نمازیں قضا ہوں تو اسے چھ نمازوں کا وقت گزرنے کا انتظار نہیں کرنا چاہیے، بلکہ قضا نمازوں  کے بعد  پہلی وقتی نماز ادا کرنے سے پہلے قضا نماز پڑھ لے، پھر وقتی نماز ادا کرے، البتہ اگر بھول جائے یا وقتی نماز کا وقت نکل رہاہو تو پہلے وقتی نماز ادا کرلے، پھر قضا نمازیں پڑھ لے، البتہ اگر کسی کے ذمے چھ سے کم نمازیں قضا تھیں، اور وقت میں گنجائش اور قضا نماز یاد ہونے کے باوجود وقتی نماز ادا کرلی، اسی طرح وہ وقتی نمازیں پڑھتا رہا اور قضا نہیں پڑھی تو حکم کے اعتبار سے اس کی یہ وقتی نمازیں موقوف رہتی ہیں، تا آں کہ فوت شدہ نماز سمیت ان کی تعداد چھ  ہوجائے تو سب نمازوں کے ادا ہوجانے کا حکم لگایا جائے گا، اور پھر اس کے بعد قضا نماز پڑھ لی تو بھی ادا ہوجائے گی۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 67):

"ولو لم يسع الوقت كل الفوائت فالأصح جواز الوقتية، مجتبى، وفيه ظن من عليه العشاء ضيق وقت الفجر فصلاها وفيه سعة يكررها إلى الطلوع وفرضه الأخير".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 68):

"(أو نسيت الفائتة) لأنه عذر (أو فاتت ست اعتقادية) لدخولها في حد التكرار المقتضي للحرج (بخروج وقت السادسة) على الأصح ولو متفرقة".

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144211200497

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں