بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

روزے میں بوس و کنار سے انزال ہونے میں صرف قضا لازم ہونے اور جماع میں قضا و کفارہ دونوں لازم ہونے کی وجہ


سوال

1. روزے کی حالت میں بیوی سے بوس و کنار کرتے ہوئے اگر شوہر کو انزال ہو جائے تو اس کے اوپر قضا ہی کیوں ہوتی ہے کفارہ لازم کیوں نہیں ہوتا ہے حالانکہ جماع کرنے پر کفارہ لازم ہوتا ہے جبکہ دونوں صورتوں میں روزہ فاسد ہوجاتا ہے؟

2.بیوی کے ساتھ بوس و کنار کرتے ہوئے اگر شوہر کو انزال ہونے کے بعد اگر شوہر نے کچھ کھا پی لیا تو بھی اس کے اوپر قضا لازم ہوتی ہے یا کفارہ لازم ہوتا ہےجبکہ اس کا روزہ پہلے سے فاسد ہو گیا ہے؟

جواب

1.روزے کی حالت میں بیوی سے جماع کرلینے سے قضاء و کفارہ دونوں لازم ہوتے ہیں، جبکہ بوس وکنارکرتے ہوئے انزال ہونے کی صورت میں صرف قضاء لازم ہے کفارہ لازم نہیں ہے، کیونکہ روزے کی حالت میں بوس و کنار  سے انزال ہونا اور  روزے کی حالت میں جماع کرنا ان دونوں جنایتوں میں خِفت اور شِدت کے اعتبار سے فرق ہے،اس لیے جزا میں بھی اسی اعتبار سے فرق کیا گیا ہے، ناقص جنایت (بوس وکنار سے انزال ہونا) کی جزا بھی ناقص یعنی صرف قضاء مقرر کی گئی اور کامل جنایت یعنی جماع کی جزا بھی کامل یعنی قضاء و کفارہ دونوں لازم کی گئیں، نیز زنا سے حد لازم ہوتی ہے، مَس (چھونے) سے انزال ہوجائے تو حد لازم نہیں ہوتی ، غرض کہ جماع اور مَس دونوں کا حکم الگ الگ ہے۔

2. بوس وکنار سے انزال ہونے سے روزہ فاسد ہوجانے کے بعد اگر کوئی قصداً کھاپی لے تو اس سے کفارہ لازم نہیں ہوگا، البتہ احترام رمضان کے خلاف ہونے کی وجہ سے سخت گناہ گار ہوگا۔

بدائع الصنائع فی ترتيب الشرائع میں ہے:

"ولو أولج ولم ينزل فعليه القضاء والكفارة لوجود الجماع صورة ومعنى، إذ الجماع: هو الإيلاج، فأما الإنزال: ففراغ من الجماع فلا يعتبر ولو أنزل فيما دون الفرج فعليه القضاء ولا كفارة عليه لقصور في الجماع لوجوده معنى لا صورة... ولو أكل أو شرب أو جامع ناسيا أو ذرعه القيء فظن أن ذلك يفطر فأكل بعد ذلك متعمدا، فعليه القضاء ولا كفارة عليه، لأن الشبهة ههنا استندت إلى ما هو دليل في الظاهر لوجود المضاد للصوم في الظاهر وهو الأكل والشرب والجماع."

(كتاب الصوم، حكم فساد الصوم، 2/ 100، ط: سعيد)

المبسوط للسرخسی میں ہے:

"رجل قبل امرأته في شهر رمضان فأنزل عليه القضاء ولا كفارة عليه لحديث ميمونة بنت سعد «أن النبي - صلى الله عليه وسلم - سئل عن رجل قبل امرأته وهما صائمان فقال: قد أفطرا» وتأويله أنه قد علم من طريق الوحي حصول الإنزال به ثم معنى افتضاء الشهوة قد حصل بالإنزال فانعدم ركن الصوم ولا يتصور أداء العبادة بدون ركنها ولكن لا تلزمه الكفارة لنقصان في الجناية من حيث إن التقبيل تبع وليس بمقصود بنفسه وفي النقصان شبهة العدم."

(كتاب الصوم، 3/ 65، ط: دار المعرفة بيروت)

فتح القدير للکمال ابن الہمام میں ہے:

"(وإن أنزل بقبلة أو لمس فعليه القضاء دون الكفارة) لوجود معنى الجماع ووجود المنافي صورة أو معنى يكفي لإيجاب القضاء احتياطا، أما الكفارة فتفتقر إلى كمال الجناية لأنها تندرئ بالشبهات كالحدود (ولا بأس بالقبلة إذا أمن على نفسه) أي الجماع أو الإنزال.

(قوله: أما الكفارة فتفتقر إلى كمال الجناية لأنها تندرئ بالشبهات) فكانت عقوبة وهو أعلى عقوبة للإفطار في الدنيا فيتوقف لزومها على كمال الجناية، ولو قال بالواو كانا تعليلين وهو أحسن ويكون نفس قوله تفتقر إلى كمال الجناية تعليلا أي لا تجب لأنها تفتقر إلى كمال الجناية إذ كانت أعلى العقوبات في هذا الباب، ولأنها تندرئ بالشبهات وفي كون ذلك مفطرا شبهة حيث كان معنى الجماع لا صورته فلا تجب."

(كتاب الصوم، ‌‌باب ما يوجب القضاء والكفارة، 2/ 331، دار الفكر بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144409100197

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں