بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

قضا نمازوں کی ادائیگی کا طریقہ


سوال

قضا نمازیں کیسے ادا کی جاتی ہیں؟

جواب

قضا نمازکی ادائیگی کا وقت، نیت، اور طریقہ کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے:

1: قضا نماز تین مکروہ اوقات کے علاوہ کسی بھی وقت پڑھ سکتے ہیں، تین مکروہ اوقات سے مراد عین طلوعِ شمس، غروبِ شمس اور استواءِ شمس کا وقت ہے، البتہ قضا نماز میں بلاوجہ تاخیر کرنا درست نہیں ہے، جلد سے جلد پڑھنی چاہیے۔

2:  قضا صرف فرض اور واجب نمازوں کی ہوتی ہے، نفل اور سنتوں کی قضا نہیں ہوتی، البتہ اگر فجر کی سنتیں رہ جائیں تو اسی دن زوال سے پہلے پہلے قضا کی جاسکتی ہیں۔

3:  قضانمازوں کی نیت کا طریقہ یہ ہے کہ اگر قضا نماز یں متعین ہیں تو ان کی نیت میں ضروری ہے کہ جس نماز کی قضا پڑھی جا رہی ہے اس کی مکمل تعیین کی جائے، یعنی فلاں دن کی فلاں نماز کی قضا پڑھ رہا ہوں، مثلاً پچھلے جمعہ کے دن کی فجر کی نماز کی قضا پڑھ رہا ہوں، البتہ اگر متعینہ طور پر قضا نماز کا دن اور وقت معلوم نہ ہو نے کی وجہ سے اس طرح متعین کرنا مشکل ہو تو اس طرح بھی نیت کی جاسکتی ہے کہ مثلاً جتنی فجر کی نمازیں میں نے قضا کی ہیں ان میں سے پہلی فجر کی نماز ادا کر رہا ہوں یا مثلاً جتنی ظہر کی نمازیں قضا ہوئی ہیں ان میں سے پہلی ظہر کی نماز ادا کر رہا ہوں، اسی طرح بقیہ نمازوں میں بھی نیت کریں ، اسی طرح پہلی کے بجائے اگر آخری کی نیت کرے تو بھی درست ہے۔

4:  قضا نمازوں کی ادائیگی کا طریقہ یہ ہے کہ ایک دن کی تمام فوت شدہ نمازیں یا کئی دن کی فوت شدہ نمازیں ایک وقت میں پڑھ لیں، یہ بھی درست ہے، نیزایک آسان صورت فوت شدہ نمازوں کی ادائیگی کی یہ بھی ہے کہ ہر وقتی فرض نمازکے ساتھ اس وقت کی قضا نمازوں میں سے ایک پڑھ لیاکریں، (مثلاً: فجر کی وقتی فرض نماز ادا کرنے کے ساتھ قضا نمازوں میں سے فجر کی نماز بھی پڑھ لیں، ظہر کی وقتی نماز کے ساتھ ظہر کی ایک قضا نماز پڑھ لیا کریں)، جتنے برس یاجتنے مہینوں کی نمازیں قضاہوئی ہیں اتنے سال یامہینوں تک اداکرتے رہیں، جتنی قضا نمازیں پڑھتے جائیں اُنہیں لکھے ہوئے ریکارڈ میں سے کاٹتے جائیں، اِس سے ان شاء اللہ مہینہ میں ایک مہینہ کی اور سال میں ایک سال کی قضا نمازوں کی ادائیگی بڑی آسانی کے ساتھ ہوجائے گی ۔

5: جو نماز حالتِ سفر میں قضا ہوجائے (یعنی اپنے شہر یا بستی کی آبادی میں داخل ہونے سے پہلے اس کا وقت نکل جائے) تو اقامت کی حالت میں یا اپنے شہر واپس لوٹ کر بھی وہ نماز قصرہی پڑھنی ہو گی، یعنی اگر ظہر کی نماز رہ گئی تھی تو دورکعت ہی قضا کرنی ہوگی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وكره) تحريماً، وكل ما لايجوز مكروه(صلاة) مطلقاً (ولو) قضاءً أو واجبةً أو نفلاً أو (على جنازة وسجدة تلاوة وسهو) لا شكر قنية (مع شروق) ... (واستواء) ... (وغروب، إلا عصر يومه)."

(كتاب الصلوة، ج:1، ص:371،ط: ايج ايم سعيد)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وقضاء الفرض والواجب والسنة فرض وواجب وسنة) لف ونشر مرتب، وجميع أوقات العمر وقت للقضاء إلا الثلاثة المنهية، كما مر.

 (قوله: وقضاء الفرض إلخ) لو قدم ذلك أول الباب أو آخره عن التفريع الآتي لكان أنسب. وأيضاً قوله: والسنة يوهم العموم كالفرض والواجب وليس كذلك، فلو قال: وما يقضى من السنة لرفع هذا الوهم، رملي.

قلت: وأورد عليه الوتر، فإنه عندهم سنة، وقضاؤه واجب في ظاهر الرواية، لكن يجاب بأن كلامه مبني على قول الإمام صاحب المذهب.

(قوله: والواجب) كالمنذورة والمحلوف عليها وقضاء النفل الذي أفسده ط (قوله: وقت للقضاء) أي لصحته فيها وإن كان القضاء على الفور إلا لعذر ط وسيأتي.

(قوله: إلا الثلاثة المنهية) وهي الطلوع والاستواء والغروب ح وهي محل للنفل الذي شرع به فيها ثم أفسده ط.

(قوله: كما مر) أي في أوقات الصلاة."

(كتاب الصلوة، باب قضاء الفوائت، ج:2، ص:66، ط: ايج ايم سعيد)

فتاوی شامی میں ہے:

"(ويجوز تأخير الفوائت) وإن وجبت على الفور (لعذر السعي على العيال؛ وفي الحوائج على الأصح)".

(كتاب الصلوة، باب قضاءالفوائت، ج:2، ص:72، ط:ايج ايم سعيد)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: كثرت الفوائت إلخ) مثاله: لو فاته صلاة الخميس و الجمعة و السبت فإذا قضاها لا بدّ من التعيين؛ لأنّ فجر الخميس مثلًا غير فجر الجمعة، فإن أراد تسهيل الأمر، يقول: أول فجر مثلًا، فإنه إذا صلاه يصير ما يليه أولًا أو يقول: آخر فجر، فإنّ ما قبله يصير آخرًا، و لايضره عكس الترتيب؛ لسقوطه بكثرة الفوائت. وقيل: لايلزمه التعيين أيضًا كما في صوم أيام من رمضان واحد، ومشى عليه المصنف في مسائل شتى آخر الكتاب تبعًا للكنز وصححه القهستاني عن المنية، لكن استشكله في الأشباه و قال: إنه مخالف لما ذكره أصحابنا كقاضي خان وغيره والأصح الاشتراط. اهـ.

قلت: وكذا صححه في الملتقى هناك، وهو الأحوط، وبه جزم في الفتح كما قدمناه في بحث النية وجزم به هنا صاحب الدرر أيضا".

(کتاب الصلوۃ، باب قضاء الفوائت، ج:2، ص:76، ط:ایج ایم سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144308101171

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں