دریافت یہ کرناہے کہ بندہ کی پیدائش 1971 / 3 / 30 کی ہے، جب کہ بندہ نے نمازیں 1987ء میں شروع کیں، مگر مہینہ بندہ کو یاد نہیں کہ کس ماہ میں شروع کیں۔
برائے مہربانی آپ حساب لگاکر بتادیں کہ اتنے سال اور مہینوں کی قضاء نمازیں بندہ کے ذمہ ہے، واضح رہے کہ بندہ کو اپنے بالغ ہونے کی عمر کا بھی تعین نہیں ہے، امید ہے حساب لگاکر جواب دیں گےتاکہ بندہ آخرت کے مطالبہ سے بچ جائے۔
واضح رهے كه جس شخص نے زمانہ ماضی میں غفلت کی بنا پر بہت سی نمازیں قضا کی ہوں تو اس کو چاہیے کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کے حضور سچے دل سے اس جرمِ عظیم پر توبہ و استغفار کرے اور آئندہ کے لیے پکا عزم کرے کہ اب کوئی بھی نماز جان بوجھ کر قضا نہیں کرے گا، توبہ کرنے کے بعد گزشتہ فوت شدہ نمازوں کی قضا پڑھنا بھی لازم ہے، صرف توبہ کرلینے سے فوت شدہ نمازیں ذمہ سے معاف نہیں ہوں گی۔
تاہم متعین طور پر اگر قضا شدہ نمازوں کی تعداد معلوم نہ ہو اور یقینی حساب بھی ممکن نہ ہو تو غالب گمان کے مطابق ایک اندازہ اور تخمینہ لگالیں اورجتنے سالوں یامہینوں کی نمازیں قضاہوئی ہیں احتیاطاً اس تعداد سے کچھ بڑھا کر اُسے کہیں لکھ کر رکھ لیں، اس کے بعد فوت شدہ نمازیں قضا کرنا شروع کردیں، جو فرض نماز فوت ہوئی ہو اس کو قضا کرتے وقت اتنی ہی رکعتیں قضا کرنی ہوں گی جتنی فرض یا واجب رکعتیں اس نماز میں ہیں، مثلًا فجر کی قضا دو رکعت، ظہر اور عصر کی چار، چار اور مغرب کی تین رکعتیں ہوں گی، عشاء کی نماز قضا کرتے ہوئے چار فرض اور تین وتر کی قضا کرنی ہوگی، قضا صرف فرض نمازوں اور وتر کی ہوتی ہے۔
قضا نماز متعینہ طور پر معلوم ہو تو اس کی نیت میں ضروری ہے کہ اسے پڑھتے وقت اس کی مکمل تعیین کی جائے، یعنی فلاں دن کی فلاں نماز کی قضا پڑھ رہا ہوں، مثلاً: پچھلے جمعہ کے دن کی فجر کی نماز کی قضا پڑھ رہا ہوں، البتہ اگر متعینہ طور پر قضا نماز کا دن اور وقت معلوم نہ ہو نے کی وجہ سے اس طرح متعین کرنا مشکل ہو تو اس طرح بھی نیت کی جاسکتی ہے کہ مثلًا جتنی فجر کی نمازیں میں نے قضا کی ہیں ان میں سے پہلی فجر کی نماز ادا کر رہا ہوں یا مثلاً جتنی ظہر کی نمازیں قضا ہوئی ہیں ان میں سے پہلی ظہر کی نماز ادا کر رہا ہوں، اسی طرح بقیہ نمازوں میں بھی نیت کریں، اسی طرح پہلی کے بجائے اگر آخری کی نیت کرے تو بھی درست ہے، مثلاً: یوں کہہ دیں: جتنی فجر کی نمازیں قضا ہوئی ہیں ان میں سے آخری فجر کی نماز ادا کررہاہوں۔
ایک دن کی تمام فوت شدہ نمازیں یا کئی دن کی فوت شدہ نمازیں ایک وقت میں پڑھ لیں، یہ بھی درست ہے۔
نیزایک آسان صورت فوت شدہ نمازوں کی ادائیگی کی یہ بھی ہے کہ ہر وقتی فرض نمازکے ساتھ اس وقت کی قضا نمازوں میں سے ایک پڑھ لیاکریں، (مثلاً: فجر کی وقتی فرض نماز ادا کرنے کے ساتھ قضا نمازوں میں سے فجر کی نماز بھی پڑھ لیں، ظہر کی وقتی نماز کے ساتھ ظہر کی ایک قضا نماز پڑھ لیا کریں)، جتنے برس یاجتنے مہینوں کی نمازیں قضاہوئی ہیں اتنے سال یامہینوں تک اداکرتے رہیں، جتنی قضا نمازیں پڑھتے جائیں اُنہیں لکھے ہوئے ریکارڈ میں سے کاٹتے جائیں، اِس سے ان شاء اللہ مہینہ میں ایک مہینہ کی اور سال میں ایک سال کی قضا نمازوں کی ادائیگی بڑی آسانی کے ساتھ ہوجائے گی۔
صورتِ مسئولہ میں سائل کی پیدائش 1971ء کے تیسرے مہینے کی ہے، اور سائل نے نمازیں 1987ء میں شروع کی ہے اورسائل کو یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ کس مہینہ میں نمازیں شروع کی ہے، اور نہ ہی بلوغت کے بارے میں معلوم ہے، جب کہ اگر بلوغت کی کوئی علامت ظاہر نہ ہوتوبلوغت کی عمر 15 سال ہے، اس اعتبار سے سائل کے بلوغت (15) کی عمر 1986ء کے تیسرے مہینہ میں ہورہی ہے، اور نمازیں 1987ء میں شروع کی ہے، لیکن کس مہینہ میں شروع کی، اس کا بھی سائل کو علم نہیں، لہذا اندازے اور احتیاط کو پیشِ نظر رکھتے ہوئےسائل کے بلوغت کے بعد سے کل ایک سال اور نو (9) مہینوں (یعنی کہ کل 21 ماہ) کی نمازیں بنتی ہیں، اس بناء پر سائل احتیاط کے پیشِ نظر اوپر ذکر کردہ طریقہ کار کے مطابق کل 21 ماہ کے نمازوں کی قضاء کرے گا۔
تبیین الحقائق میں ہے:
"{فرع} وفي الحاوي لا يدري كمية الفوائت يعمل بأكبر رأيه فإن لم يكن له رأي يقضي حتى يستيقن... ولو فاتته صلاة من يوم وليلة ولا يدري أيها هي يقضي الخمس احتياطا وفي صلاة الجلابي نسي صلاة من يوم وليلة ولا يدري أيتها هي يتحرى فإن لم يكن له رأي أعاد صلاة يوم وليلة عن أبي حنيفة وأبي يوسف والشافعي ومالك رحمه الله وقال محمد والثوري يعيد ثلاث صلوات ركعتان ينوي بهما الفجر إن كانت عليه وأربعا ينوي ظهرا أو عصرا أو عشاء إن كانت عليه وثلاثا بنية المغرب وقال زفر وبشر المريسي والمزني يصلي أربعا يقعد في الثانية والثالثة والرابعة ينوي الصلاة التي عليه، وقال عمرو بن أبي عمرو: سألت محمدا عمن نسي سجدة صلبية ولم يدر أنها من أية صلاة قال يعيد الخمس قلت فإن نسي خمس صلوات من خمسة أيام أو أكثر يعيد صلاة خمسة أيام وذكر القدوري قول محمد مع أبي حنيفة والرازي والنسفي مع الثوري وفي جامع الكردي نسي صلاة من يوم وليلة أو ركنا من صلاة لا يدري أيتها يقضي صلاة يوم وليلة؛ لأن تعيين النية في القضاء شرط وأنه متعذر بجهله بها فيقضي صلاة يوم وليلة ليخرج عن العهدة بيقين وبه ظهر بطلان قول محمد وزفر والمريسي والمزني.
ولو نسي خمس صلوات من خمسة أيام أو ستا من ستة أيام أو سبعا من سبعة أيام أو ثمانيا من ثمانية أيام قضى صلوات ثمانية أيام أو سبعة أو ستة لما بينا من تعيين نية القضاء، وقيل هذا على قولهما أما على قول أبي حنيفة فلا؛ لأن عنده إذا صارت ستا عادت المفعولات صحيحة كذا في الدراية ونظر بعضهم فيه بأن ما ذكر عن أبي حنيفة هو فيما إذا كان عالما بالفائتة.
والفرض هنا أنه لا يدري أي صلاة وتعيين النية واجب ولا طريق إلى قضاء الفوائت عينا إلا بقضاء جميع صلوات الأيام عند الكل ولا يخفى حسن هذا النظر اهـ."
(كتاب الصلاة، باب قضاء الفوائت، ج: 1، ص: 190، ط: دار الكتاب الإسلامي)
حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:
"وإذا كثرت الفوائت يحتاج لتعيين كل صلاة" يقضيها لتزاحم الفروض والأوقات كقوله أصلي ظهر يوم الإثنين ثامن عشر جمادى الثانية سنة أربع وخمسين وألف وهذا فيه كلفة "فإن أراد تسهيل الأمر عليه نوى أول ظهر عليه" أدرك وقته ولم يصله فإذا نواه كذلك فيما يصليه يصير أولا فيصح بمثل ذلك وهكذا "أو" إن شاء نوى "آخره" فيقول أصلي آخر ظهر أدركته ولم أصله بعد فإذا فعل كذلك فيما يليه يصير آخرا بالنظر لما قبله فيحصل التعيين."
(كتاب الصلاة، باب قضاء الفوائت، ص: 446، ط: دار الكتب العلمية)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"بلوغ الغلام بالاحتلام أو الإحبال أو الإنزال، والجارية بالاحتلام أو الحيض أو الحبل، كذا في المختار. والسن الذي يحكم ببلوغ الغلام والجارية إذا انتهيا إليه خمس عشرة سنة عند أبي يوسف ومحمد - رحمهما الله تعالى - وهو رواية عن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - وعليه الفتوى، وعند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - ثماني عشرة سنة للغلام وسبع عشرة سنة للجارية، كذا في الكافي."
(كتاب الحجر، الباب الثاني في الحجر للفساد، الفصل الثاني في معرفة حد البلوغ، ج: 5، ص: 61، ط: دار الفكر)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144601100003
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن