بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

قضا نمازوں کی ادائیگی ضروری ہے؟


سوال

کیا میں  نےجو نمازیں قضا کی ہیں اس کی قضا پڑھنا میرے لیے لازمی ہے؟ یا صرف توبہ کرنے سے معاف ہو جائے گی؟

جواب

جس شخص نے زمانہ ماضی میں بلوغ کے بعد غفلت کی بنا پر بہت سی نمازیں قضا کی ہوں تو اس کو چاہیے کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کے حضور سچے دل سے اس جرم عظیم پر توبہ و استغفار کرے اور آئندہ کے لیے پکا عزم کرے کہ اب کوئی بھی نماز جان بوجھ کر قضا نہیں کرے گا، توبہ کرنے کے بعد گزشتہ فوت شدہ نمازوں کی قضا پڑھنا بھی لازم ہے، صرف توبہ کرلینے سے فوت شدہ نمازیں ذمہ سے معاف نہیں ہوں گی۔اس لیے کہ پنج وقتہ نماز  اللہ رب العزت کا بندہ پر قرض ہے جو وقت پر ادا نہ کرنے کی صورت میں ذمہ پر واجب الادا رہتا ہے، اس لیے توبہ کی تکمیل کے لیے قضا نمازوں کا پڑھنا بھی لازم ہے۔

مسلم شریف کی روایت میں ارشاد ہے:

''٣١٤ - (٦٨٤) حدثنا ‌هداب بن خالد، حدثنا ‌همام، حدثنا ‌قتادة، عن أنس بن مالك أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: « من نسى صلاةً فليصلها إذا ذكرها، لا كفارة لها إلا ذلك ». قال قتادة: ﴿ وَاَقِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِىْ﴾''۔

(ج:٢، ص: 142، كتاب المساجد ومواضع الصلاة، باب قضاء الصلاة الفائتة، الناشر: دار الطباعة العامرة - تركيا)

ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو آدمی نماز پڑھنا بھول جائے تو جب اسے یاد آجائے اسے چاہیے کہ وہ اس نماز کو پڑھ لے، اس کے سوا اس کا کوئی کفارہ نہیں، حضرت قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے (اس کی تائید میں آیت) ﴿ وَاَقِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِىْ﴾ پڑھی۔

مسلم شریف ہی کی دوسری روایت میں ہے:

''٣١٦ - (٦٨٤) وحدثنا ‌نصر بن علي الجهضمي ، حدثني ‌أبي ، حدثنا ‌المثنى ، عن ‌قتادة ،عن أنس بن مالك قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: « إذا رقد أحدكم عن الصلاة أو غفل عنها فليصلها إذا ذكرها ؛ فإن الله يقول: ﴿ وَاَقِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِىْ﴾'''۔

ترجمہ:حضرت  انس بن مالک فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی نماز کے وقت سو جائے یا نماز سے غافل ہو جائے تو اسے چاہیے کہ جب اسے یاد آئے وہ نماز پڑھ لے ؛ کیوں کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿ وَاَقِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِىْ﴾ (میری یاد کے لیے نماز قائم کرو)۔

در مختار میں ہے:

"باب قضاء الفوائت لم يقل المتروكات ظنا بالمسلم خيرا، إذ التأخير بلا عذر كبيرة لا تزول بالقضاء بل بالتوبة."

رد المحتار میں ہے:

قوله بل بالتوبة) أيبعد القضاء أما بدونه فالتأخير باق، فلم تصح التوبة منه لأن من شروطها الإقلاع عن المعصية كما لا يخفى فافهم. "

(رد المحتار علي الدر المختار،کتاب الصلاۃ، ج:2، ص:62، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144504102184

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں