بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قضا نمازوں کافدیہ


سوال

1۔میرے والد ستاون برس کی عمر میں فوت ہوئے، اندازہ ہے کہ ان کی کوئی  25/30 برس کی نماز یں قضا ہوئی  ہوں گی ،اس بارے کیا احکامات ہیں؟

2۔فدیہ دیں تو کتنا دیں؟

3۔اور فدیہ کہاں کہاں دیا جا سکتا ہے؟

جواب

1۔ صورتِ مسئولہ میں اگر سائل کے والد  نے  انتقال سے  پہلے یہ  وصیت  کی تھی  کہ میرے مرنے کے بعد میرے ترکہ میں سے میری قضا  نمازوں کا فدیہ ادا کردینا اور ان  کے ترکہ میں مال بھی ہے تو  ایسی صورت میں   ورثاء پر  مرحوم  (کی تجہیز و تکفین کے اخراجات اور اس کے ذمے واجب الادا قرض نکالنے کے بعد )  ایک تہائی ترکہ سے اس  وصیت کو پورا کرنا  ضروری   ہے، اور ایک تہائی سے زائد میں  وصیت نافذ کرنے کے لیے تمام ورثاء(بشرطیکہ عاقل بالغ ہوں ) کی اجازت ضروری  ہوگی،  اگر کوئی عاقل بالغ وارث اپنے مال  سے فدیہ ادا کردے تو اس کی اجازت ہوگی۔

اور  اگرسائل کے والد   نے فدیہ ادا کرنے کی وصیت نہیں کی تھی تو ورثاء پر فدیہ ادا کرنا لازم نہیں ہے، البتہ اگر کوئی عاقل بالغ وارث اپنے مال سے مرحوم کی  نمازوں اور روزوں کا فدیہ ادا کرنا چاہے تو یہ درست ہے، اور یہ اس   کے وارث کی طرف سے تبرع واحسان ہوگا۔

2۔ ہر نماز کا فدیہ صدقۃ الفطر  کی مقدار کے برابر  یعنی پونے دو کلو گندم یا اس کی  قیمت ہے،اور  وتر کی نماز کے ساتھ روزانہ کے چھ فدیہ ادا کرنے ہیں۔

3۔ فدیہ  کا مصرف وہی ہے جو زکوٰۃ کا مصرف ہے یعنی مسلمان فقیر  جس کے پاس اس کی بنیادی ضرورت  و استعمال ( یعنی رہنے کا مکان ، گھریلوبرتن ، کپڑے وغیرہ)سے زائد،  نصاب کے بقدر  (یعنی صرف سونا ہو تو ساڑھے  سات  تولہ  سونا یا  ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی موجودہ قیمت  کے برابر)  مال یا  سامان موجود  نہ ہو   اور  وہ  سید/  عباسی  نہ  ہو۔

مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح    میں ہے:

"وعليه الوصية بما قدر عليه وبقي بذمته فيخرج عنه وليه من ثلث ما ترك  لصوم كل يوم ولصلاة كل وقت حتى الوتر نصف صاع من بر أو قيمته وإن لم يوص وتبرع عنه وليه جاز ولا يصح أن يصوم ولا أن يصلي عنه".

 (ص: 169، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المریض، فصل فی اسقاط الصلاۃ والصوم، ط: المکتبۃ العصریہ)

فتاوی شامی میں ہے:

"(ولو مات وعليه صلوات فائتة وأوصى الكفارة يعطى لكل صلاة نصف صاع من بر) كالفطرة  (وكذا حكم الوتر) والصوم، وإنما يعطي (من ثلث ماله).

(قوله: وإنما يعطي من ثلث ماله) أي فلو زادت الوصية على الثلث لايلزم الولي إخراج الزائد إلا بإجازة الورثة".

(ج؛2/ص؛72،73،کتاب الصلاۃ باب قضاءالفوائت/ط؛سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"باب المصرف أي مصرف الزكاة و العشر، ... (هو فقير، وهو من له أدنى شيء) أي دون نصاب أو قدر نصاب غير نام مستغرق في الحاجة.

و هو مصرف أيضاً لصدقة الفطر والكفارة والنذر وغير ذلك من الصدقات الواجبة، كما في القهستاني."

(كتاب الزكاة،باب مصرف الزكاةوالعشر،   2/ 339،  ‌‌ط: سعید)

         فتاوی عالمگیری میں ہے:

"إذا مات الرجل وعليه صلوات فائتة فأوصى بأن تعطى كفارة صلواته يعطى لكل صلاة نصف صاع من بر وللوتر نصف صاع ولصوم يوم نصف صاع من ثلث ماله".

 (1 / 125، الباب الحادي عشر في قضاء الفوائت، ط؛ رشیدیه)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144407100016

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں