بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

4 جمادى الاخرى 1446ھ 07 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

قضا نمازوں اور روزوں کے فدیے کا حکم


سوال

1۔میں نے ایک صاحب کو جو کسی جگہ نوکری کر رہے تھے وہاں سے ملازمت چھڑوا کر اپنی کمپنی میں ملازمت دی، بعد میں معلوم ہوا کہ یہ شخص میرے لیے موزوں نہیں ہے، تو کیا اب میں انہیں دوسری جگہ ملازمت تلاش کرنے کا کہہ سکتا ہوں یا ملازمت سے فارغ کرسکتا ہوں؟

2۔میں اپنے والد اور دادا کے ذمے جو قضا نمازیں ہیں ان کا فدیہ دینا چاہتا ہوں، اس کا طریقہ کار اور مقدار بتائیں۔

3۔ میرے ذمہ خود کئی قضا نمازیں اور کچھ روزے ہیں، کیا ان کے لیے میں اپنے مال میں سے فدیہ کی رقم الگ کرسکتا ہوں؟ تاکہ میرے ورثاء پھر وہ فدیہ ادا کرسکیں۔

جواب

1۔صورتِ مسئولہ میں اگر سائل نے مذکورہ ملازم سے سابقہ ملازمت  چھڑواتے وقت ایسا   کوئی معاہدہ نہ کیا ہو کہ  سائل وہ ملازمت چھوڑنے پر اسے ہر صورت میں یا ہمیشہ کے لیے اپنے ہاں ملازم رکھے گا تو ایسی صورت میں  سائل اسے ملازمت سے شرعاً  فارغ کرسکتا ہے، لیکن اخلاقاً سائل کو چاہیے کہ اپنے ملازم کو کسی دوسری جگہ ملازمت تلاش کرنے کا کہہ دے، اور جب تک اسے کوئی دوسری جگہ نہ ملے اسے اپنے ہاں رکھے اور تنخواہ وغیرہ دیتا رہے، کیوں کہ مذکورہ شخص نے سائل کے کہنے پر سابقہ ملازمت چھوڑ دی تھی۔

2۔صورتِ مسئولہ میں اگر  سائل کے مرحوم والد اور دادا  بیماری کی حالت میں ہوش و حواس میں تھے اور ان  کے ذمہ قضا  نمازیں  ہیں اور انہوں نے فدیہ ادا کرنے کی وصیت کی ہے تو اس صورت میں ان کے مال میں سے ہی فدیہ اداکیاجائے گا،اور  (تجہیز و تکفین کے اخراجات اور قرض کی ادائیگی کے بعد، باقی رہنے والے) کل مال کے ایک تہائی حصہ سے فدیہ کی رقم نکالی جائے گی، اگر تمام قضا نمازوں کا فدیہ ایک تہائی ترکے میں سے ادا ہوجائے تو بہتر، اگر مکمل ادا نہ ہو تو بقیہ نمازوں  کا فدیہ ورثہ کے ذمے لازم نہیں ہوگا، تاہم اگر عاقل بالغ ورثاء مشترکہ ترکہ میں سے یا ہر وارث اپنے حصے میں سے بطورِ تبرع مرحوم کی بقیہ فوت شدہ نماز و روزوں کی طرف سے فدیہ دینا چاہیں تو   یہ  ان  کی طرف سے احسان ہوگا،دے سکتے ہیں ۔

اور اگرسائل  کے مرحوم  والد اور دادا نے فدیہ کی وصیت نہیں کی تو شرعاً اس  پر ان کی نماز وں  کا  فدیہ ادا کرنا لازم نہیں، البتہ اگر وہ   از خود  اپنی جانب سے ان کی نمازوں کا فدیہ  ادا کردیں تو یہ سائل کی طرف سے احسان شمار ہوگا اور  امید ہے کہ مرحوم والد اور دادا  آخرت کی باز پرس سے بچ جائیں گے۔

3۔ سائل اگر زیادہ عمر کی وجہ سے  اس قدر کمزور ہو کہ سابقہ  روزوں  کی قضا کرنا مشکل ہو توایسی صورت میں اس  کے لیے فی الحال وہ روزے  چھوڑنے کی گنجائش ہے،یعنی فی الحال ان روزوں کی قضا سائل پر لازم نہیں ہے، بلکہ   صحت یاب ہو نے کے بعد  جب وہ روزوں کی قضا پر قادر ہوجائے تو اس کی قضا لازم ہو گی، لیکن  اگر مرض دائمی ہو اور صحت یابی  کی امید نہ ہو تو سائل قضا شدہ روزوں کا فدیہ دے سکتا ہے، اور  ہر روزے کے بدلے میں سائل پر  ایک صدقہ فطر کی مقدار فدیہ دینا لازم ہو گا، لیکن  فدیہ دینے کے بعد بھی اگر سائل  زندگی میں ان فوت شدہ روزوں کی قضا پر قادر ہوجائے گا تو روزے رکھنا لازم ہوں گے، فدیہ باطل ہوجائے گا۔

باقیقضا نمازوں کافدیہ زندگی میں ادا کرنا صحیح نہیں ہے،  بلکہ زندگی میں قضا نمازوں کو ادا کرنا ہی لازم ہے، یعنی  فوت شدہ نمازوں کا فدیہ اور کفارہ یہی ہے کہ ان نمازوں  کو ادا کیا جائے، اور ادا کرنے کے بعد تاخیر کی وجہ سے جو گناہ ہوا ہے اس سے توبہ کرنا بھی ضروری ہے، زندگی میں قضا نمازوں کے بدلےمیں صدقہ دینے سے کچھ نہیں ہوگا، اس لیے ان نمازوں کو ہر حال میں ادا کرنا لازم ہے ۔

لیکن  جس  شخص کی بیماری یا کسی عذر کی وجہ سے نمازیں رہ گئی ہوں اور وہ مرتے دم تک اس کو ادا نہ کرسکا تو  اب وہ مرنے سے پہلے وصیت کرجائے ، مرنے کے بعد اس کی وصیت کے مطابق ایک تہائی ترکہ میں سے اس کی نمازوں کا فدیہ ادا کرنا ضروری ہوگا،  اگر اس نے وصیت نہ کی ہو اور تمام عاقل بالغ ورثاء اپنی خوشی سے  مرحوم کی طرف سے فدیہ ادا کردیں تو یہ بھی جائز ہے، اور دونوں صورتوں میں روزے  پرقیاس کرکے فقہاء یہ فرماتے ہیں  اللہ کی ذات سے امید ہےیہ   نمازوں کا  فدیہ  ان شاء اللہ  قبول فرمالیں گے۔

مذکورہ تفصیل سے یہ واضح ہوگیا کہ نمازیں اس  لیے چھوڑدینا کہ اس کا فدیہ ادا کردوں گا قطعاً جائز نہیں ہے، بلکہ نماز چھوڑنا کبیرہ گناہ ہے، اور نماز فوت ہونے کی صورت میں ہر حال میں اس کو قضا بھی کرنا ہے اور توبہ بھی کرنی ہے، اور اگر کوشش کے باوجود قضا نہ کرسکا تو  اس صورت میں حسبِ قاعدہ فدیہ دیا جائے گا۔

 ایک روزے  کا فدیہ ایک صدقہ فطر کے برابر ہے،اسی طرح ایک نماز  کا فدیہ بھی ایک صدقہ فطر کے برابر ہے، اور روزانہ وتر کے ساتھ  چھ نمازیں ہیں تو ایک دن کی نمازوں کے فدیے بھی چھ ہوئے، اور ایک صدقہ فطر تقریباً پونے دو کلو گندم یا اس کاآٹا یا اس کی موجودہ قیمت  ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 72): 

"(ولو مات وعليه صلوات فائتة وأوصى بالكفارة يعطى لكل صلاة نصف صاع من بر) كالفطرة.
(قوله: وعليه صلوات فائتة إلخ) أي بأن كان يقدر على أدائها ولو بالإيماء، فيلزمه الإيصاء بها، وإلا فلا يلزمه وإن قلت، بأن كانت دون ست صلوات، لقوله عليه الصلاة والسلام: «فإن لم يستطع فالله أحق بقبول العذر منه». وكذا حكم الصوم في رمضان إن أفطر فيه المسافر والمريض وماتا قبل الإقامة والصحة، وتمامه في الإمداد. مطلب في إسقاط الصلاة عن الميت.
(قوله: يعطى) بالبناء للمجهول: أي يعطي عنه وليه: أي من له ولاية التصرف في ماله بوصاية أو وراثة فيلزمه ذلك من الثلث إن أوصى، وإلا فلا يلزم الولي ذلك؛ لأنها عبادة فلا بد فيها من الاختيار، فإذا لم يوص فات الشرط فيسقط في حق أحكام الدنيا للتعذر، بخلاف حق العباد فإن الواجب فيه وصوله إلى مستحقه لا غير، ولهذا لو ظفر به الغريم يأخذه بلا قضاء ولا رضا، ويبرأ من عليه الحق بذلك، إمداد.
ثم اعلم أنه إذا أوصى بفدية الصوم يحكم بالجواز قطعاً؛ لأنه منصوص عليه. وأما إذا لم يوص فتطوع بها الوارث فقد قال محمد في الزيادات: إنه يجزيه إن شاء الله تعالى، فعلق الإجزاء بالمشيئة لعدم النص، وكذا علقه بالمشيئة فيما إذا أوصى بفدية الصلاة؛ لأنهم ألحقوها بالصوم احتياطاً؛ لاحتمال كون النص فيه معلولاً بالعجز، فتشمل العلة الصلاة وإن لم يكن معلولاً تكون الفدية براً مبتدأً يصلح ماحياً للسيئات، فكان فيها شبهة، كما إذا لم يوص بفدية الصوم، فلذا جزم محمد بالأول ولم يجزم بالأخيرين، فعلم أنه إذا لم يوص بفدية الصلاة فالشبهة أقوى".

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

"﴿ فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضاً اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَهٗ فِدْیَةٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ﴾۔"

( البقرة:184))

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308100086

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں