بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قضا نمازوں کا طریقہ


سوال

کیا میں ساری  قضاء نمازوں میں پہلے  صرف ایک وقت کی نماز پڑھ کر مکمل کروں  پھر اس کے بعد دوسری مکمل کرو ں جس میں  وقت کا تعین نہ ہو؟  مطلب ظہر کی نماز شام کو پڑھ سکتا ہوں؟

جواب

قضا نمازوں کو ادا کرنے  کا طریقہ یہ ہے کہ بالغ ہونے کے بعد سے لے کر اب تک جتنی نمازیں چھوٹ گئی ہیں اُن کاحساب کریں، اور  حساب ممکن نہ ہو تو غالب گمان کے مطابق ایک اندازہ اور تخمینہ لگالیں، اور اُسے کہیں لکھ کر رکھ لیں، اس کے بعد فوت شدہ نمازیں قضا کرنا شروع کردیں۔ اگر متعینہ طور پر قضا نماز کا دن اور وقت معلوم نہ ہو تو  نیت کرنے کا  طریقہ یہ ہے کہ ہر نماز میں مثلاً فجر کی قضا میں یوں نیت کریں : ”میں اپنی تمام فوت شدہ نمازوں میں جو پہلی فجر کی نمازہےاُس کی قضا کرتا ہوں“۔  اسی طرح بقیہ نمازوں میں بھی نیت کریں۔ قضا صرف فرض نمازوں اور وتر کی ہوتی ہے۔ 
 آسانی کے لیے یوں کیا جاسکتا ہے کہ ہر وقتی نماز کے ساتھ ساتھ  فوت شدہ فرض نمازوں میں سے اسی وقت کی ایک نماز قضاءً پڑھتے جائیں ، اور جتنی قضا نمازیں پڑھتے جائیں اُنہیں لکھے ہوئے ریکارڈ میں سے کاٹتے جائیں، اِس سے ان شاء اللہ مہینہ میں ایک مہینہ کی اور سال میں ایک سال کی نمازیں بڑی آسانی کے ساتھ قضا ہوجائیں گی ۔ 

تاہم اگر ایک متعین نماز مثلاً ظہر کی تمام قضا نماز یں پہلے پڑھ کر اسی طرح بعد میں دوسری نماز پڑھنا  چاہیں تو یہ صورت بھی جائز ہے۔ قضا نماز  تین مکروہ اوقات کے علاوہ ہر وقت پڑھی جا سکتی ہے، وہ  تین اوقات درج ذیل ہیں:

1- طلوعِ شمس، یعنی جس وقت سورج طلوع ہونا شروع ہو، اس وقت سے لے کر جب تک سورج ایک نیزہ کے بقدر بلند نہ ہوجائے، تقریباً دس منٹ۔

2-  استواءِ شمس( یعنی نصف النہار کا وقت) یعنی جب دوپہر کے وقت سورج بالکل سر پر آجائے، احتیاطاً اس سے پانچ منٹ پہلے اور پانچ منٹ بعد نماز نہیں پڑھنی چاہیے، یہ بھی تقریباً دس منٹ کا وقت ہے۔

3- غروبِ شمس، یعنی عصر کی نماز کے بعد سورج غروب ہونے سے پہلے جب زرد پڑ جاتاہے، اس وقت سے لے کر سورج غروب ہونے تک۔

فتاوی شامی میں ہے :

"كثرت الفوائت نوى أول ظهر عليه أو آخره"

(كتاب الصلاة، باب قضاء الفوائت، ج2، ص76، سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"ثلاث ساعات لا تجوز فيها المكتوبة ولا صلاة الجنازة ولا سجدة التلاوة إذا طلعت الشمس حتى ترتفع وعند الانتصاف إلى أن تزول وعند احمرارها إلى أن يغيب إلا عصر يومه ذلك فإنه يجوز أداؤه عند الغروب. هكذا في فتاوى قاضي خان قال الشيخ الإمام أبو بكر محمد بن الفضل ما دام الإنسان يقدر على النظر إلى قرص الشمس فهي في الطلوع."

كذا في الخلاصة هذا إذا وجبت صلاة الجنازة وسجدة التلاوة في وقت مباح وأخرتا إلى هذا الوقت فإنه لا يجوز قطعا أما لو وجبتا في هذا الوقت وأديتا فيه جاز؛ لأنها أديت ناقصة كما وجبت. كذا في السراج الوهاج وهكذا في الكافي والتبيين لكن الأفضل في سجدة التلاوة تأخيرها وفي صلاة الجنازة التأخير مكروه. هكذا في التبيين ولا يجوز فيها قضاء الفرائض والواجبات الفائتة عن أوقاتها كالوتر. هكذا في المستصفى والكافي."

(كتاب الصلاة،الباب الأول في مواقيت الصلاة وما يتصل بها، الفصل الثالث في بيان الأوقات التي لا تجوز فيها الصلاة وتكره فيها، ج1، ص52، رشيدية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144405101099

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں