بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قضا نمازوں کا فدیہ اور اس کا ثبوت


سوال

مرنے  کے بعدقضا  نمازوں کے  فدیہ کے  بارے میں کیا حکم ہے؟ اور کیا مرنے کے بعد قضا  نمازوں کا  فدیہ  حدیث  سے ثابت ہے؟ 

جواب

واضح رہے کہ  نماز کا فدیہ زندگی میں دینا درست نہیں ہے، اور نمازیں اس فدیہ سے معاف نہیں ہوں گی، کیوں کہ نماز میں یہ وسعت ہے کہ اگر  کھڑے ہوکر نہ پڑھ سکے تو  بیٹھ کر پڑھے، اور اگر بیٹھ کر نہ پڑھ سکے تو  لیٹ کرپڑھے، اگر رکوع وسجود کے ساتھ نہیں پڑھ سکتا تو  اشارہ سے پڑھے، اور اگر کسی بھی طرح نہ پڑھ سکے تو  صحت حاصل ہونے کے بعد اس کی قضا کرے، اگر اسی بیماری میں انتقال ہوجائے جب کہ وہ اشارے سے بھی نماز ادا کرنے پر قادر نہ ہو تو اس کے ذمے نماز کی  قضا یا وصیت  کرنا واجب نہیں ہے، اور اگر قضا کی قدرت حاصل ہوجائے، خواہ اشاروں سے یا بیٹھ کر، پھر بھی نہ پڑھ سکے  تو اس پر لازم ہے کہ مرنے سے پہلے فدیہ ادا کرنے کی وصیت کرجائے۔

اب  اگر کسی شخص کے ذمہ قضا نمازیں باقی ہوں اور وہ اپنی زندگی میں اس کو ادا  نہ کرسکے تو اگر انتقال سے پہلے وہ یہ وصیت کرگیا تھا کہ میرے مرنے کے بعد میرے ترکہ میں سے ان نمازوں کا فدیہ ادا کردینا اور اس کے ترکہ میں مال بھی ہے تو  ایسی صورت میں  اس کے ورثاء پر مرحوم کے ایک تہائی ترکہ سے اس کی وصیت کو پورا کرنا  ضروری  ہوتاہے، اور ایک تہائی سے زائد میں  وصیت نافذ کرنے کے لیے تمام ورثاء کی اجازت ضروری ہوگی،  اور اگر مرحوم  نے فدیہ ادا کرنے کی وصیت نہیں کی تو ورثاء پر فدیہ ادا کرنا لازم نہیں ہے، البتہ اگر کوئی عاقل بالغ وارث اپنے حصے یا  مال سے مرحوم کی  نمازوں اور روزوں کا فدیہ ادا کرنا چاہے تو یہ درست ہے، اور یہ اس  کے وارث کی طرف سے تبرع واحسان ہوگا۔

         نیز ہر نماز کا فدیہ صدقۃ الفطر  کی مقدار کے برابر (پونے دو کلو گندم یا اس کی  قیمت) ہے،اور  وتر کی نماز کے ساتھ روزانہ کے چھ فدیہ ادا کرنے ہیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(ولو مات وعليه صلوات فائتة وأوصى الكفارة يعطى لكل صلاة نصف صاع من بر) كالفطرة  (وكذا حكم الوتر) والصوم، وإنما يعطي (من ثلث ماله).

(قوله: وإنما يعطي من ثلث ماله) أي فلو زادت الوصية على الثلث لايلزم الولي إخراج الزائد إلا بإجازة الورثة".

(ج؛2/ص؛72،73، باب قضاءالفوائت/ط؛سعید)

باقی نماز کے  فدیہ سے متعلق شریعت میں صریح نص نہیں ہے، بلکہ روزے سے عاجز شخص کے فدیہ سے  متعلق جو نصوص ہیں ، ان میں یہ احتمال ہے کہ اس کی علت ”روزہ رکھنے سے عاجز ہونا ہے“ اور یہ علت چوں کہ  مرتے وقت نماز میں بھی پائی گئی ہے، اس لیے احتیاطًا نماز کے فدیہ کی وصیت کرنے کو لازم کیا گیا ہے، اور امام محمد رحمہ اللہ نے اس  تعبیر یوں کی ہے کہ: ان شاء اللہ  (اللہ کی ذات سے امید ہے کہ) یہ کافی ہوجائے گا،   ورنہ کم از کم نفلی صدقہ ہوگا، اور اچھائی برائی کو مٹادیتی ہے۔ 

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1 / 355):

"(وهي عبادة بدنية محضة، فلا نيابة فيها أصلا) أي لا بالنفس كما صحت في الصوم بالفدية للفاني؛ لأنها إنما  تجوز بإذن الشرع ولم يوجد.

(قوله: بالفدية) متعلق بالضمير المستتر في صحت لرجوعه إلى النيابة التي هي مصدر: أي كما صحت النيابة بالفدية، ويدل عليه تعلق قوله بالنفس بقوله نيابة المذكور في المتن.

واعلم أن صحة الفدية في الصوم للفاني مشروطة باستمرار عجزه إلى الموت. فلو قدر قبله قضى كما سيأتي في كتاب الصوم. اهـ. ح.

(قوله: لأنها) أي الفدية. وقوله لم يوجد: أي إذن الشرع بالفدية في الصلاة ح وهذا تعليل لعدم جريان النيابة في الصلاة بالمال. وفيه إشارة إلى الفرق بين الصلاة والصوم، فإن كلا منهما عبادة بدنية محضة وقد صحت النيابة في الصوم بالفدية للشيخ الفاني دون الصلاة. ووجه الفرق أن الفدية في الصوم إنما أثبتناها على خلاف القياس اتباعا للنص؛ ولذا سماها الأصوليون قضاء بمثل غير معقول؛ لأن المعقول قضاء الشيء بمثله، ولم نثبتها في الصلاة لعدم النص، فإن قلت: قد أوجبتم الفدية في الصلاة عند الإيصاء بها من العاجز عنها، فقد أجريتم فيها النيابة بالمال مع عدم النص، ولا يمكن أن يكون ذلك بالقياس على الصوم؛ لأن ما خالف القياس فعليه غيره لا يقاس.قلت: ثبوت الفدية في الصوم يحتمل أن يكون معللا بالعجز وأن لا يكون، فباعتبار تعليله به يصح قياس الصلاة عليه لوجود العلة فيهما، وباعتبار عدمه لا يصح، فلما حصل الشك في العلة قلنا بوجوب الفدية في الصلاة احتياطا؛ لأنها إن لم تجزه تكون حسنة ماحية لسيئة، فالقول بالوجوب أحوط؛ ولذا قال محمد تجزئه إن شاء الله تعالى، ولو كان بطريق القياس لما علقه بالمشيئة كما في سائر الأحكام الثابتة بالقياس، هذا خلاصة ما أوضحناه في حواشينا على شرح المنار للشارح."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144205200349

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں