بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قضا نمازیں کس وقت پڑھنی چاہییں؟


سوال

میں روزانہ ہرنماز کے بعدایک قضاء نماز بھی پڑھتاہوں،  سوال یہ ہے کہ:

1۔ کیا میں یہ قضاء  نماز وقتی  نماز سے پہلے ادا کروں یابعد میں ؟

2۔ کیا صبح اور عصر کے  نمازوں کے بعد قضاء نمازیں ادا کرسکتا ہوں یا نہیں ؟

3۔ کیاکسی ایک وقت (مثلاً ظہر )کی قضاء نماز دوسرے وقت( مثلاً عصر ) کے وقتی نمازکے ساتھ پڑھ سکتاہوں یا نہیں؟ 

جواب

1۔ صورتِ مسئولہ میں اگر فوت شدہ نمازیں زیادہ ہوں تو وقتی نماز وں  اور فوت شدہ نمازوں  کے درمیان ترتیب ضروری نہیں ہے،  البتہ اگر وقت ختم ہوجانے کا خوف ہو تو  پہلے  وقتی نماز پڑھنا ضروری ہے۔

2۔ فجر اور عصر کی نماز کے بعد مطلقاً تمام قضا نمازیں ادا کرنا جائز ہے، البتہ طلوعِ آفتاب ، عینِ زوال آفتاب اور عصر کی نماز کا آخری وقت جب سورج زردی مائل ہوجاتا ہے اس وقت سے لے کر غروب آفتاب کے  دوران قضا نماز ادا کرنے کی اجازت نہیں۔اسی طرح فجر اور عصر کے بعد لوگوں کے سامنے قضا نماز نہ پڑھیں اس سے لوگوں کے سامنے  اپنے عیب کو ظاہر کرنا لازم آتا ہے۔

3۔اوقاتِ  ممنوعہ(  یعنی  سورج طلوع  ہونے سے لے کر اشراق کا وقت ہوجانے تک،  عینِ  زوال شمس  اور  غروب آفتاب سے قبل جب سورج زردی مائل ہوجاتا ہے سے لے کر غروب آفتاب  کے وقت   ) کے علاوہ باقی کسی بھی وقت میں  قضاء نماز پڑھی جاسکتی ہے، چاہے ایک وقت(مثلاً ظہر ) کی  قضاء نماز کو دوسرے وقت( مثلاً عصر ) کی  وقتی نمازکے ساتھ پڑھے یا ظہر کی قضاء نماز ظہر کی وقتی نماز کے ساتھ پڑھے دونوں صورتیں جائز ہیں۔

فتاویٰ عالمگیریہ میں ہے:

"ويسقط الترتيب عند كثرة الفوائت وهو الصحيح، هكذا في محيط السرخسي وحد الكثرة أن تصير الفوائت ستا بخروج وقت الصلاة السادسة وعن محمد - رحمه الله تعالى - أنه اعتبر دخول وقت السادسة، والأول هو الصحيح، كذا في الهداية....وكثرة الفوائت كما تسقط الترتيب في الأداء تسقط في القضاء حتى لو ترك صلاة شهر ثم قضى ثلاثين فجرا ثم ثلاثين ظهرا ثم هكذا صح، هكذا في محيط السرخسي.

الترتيب إذا سقط بكثرة الفوائت ثم قضى بعض الفوائت وبقيت الفوائت أقل من ستة الأصح أنه لا يعود، هكذا في الخلاصة قال الشيخ الإمام الزاهد أبو حفص الكبير وعليه الفتوى، كذا في المحيط.حتى لو ترك صلاة شهر فقضاها إلا صلاة واحدة ثم صلى الوقتية وهو ذاكر لها جاز، كذا في محيط السرخسي."

( كتاب الصلاة، الباب الحادي عشر في قضاء الفوائت، ج:1، ص:123، ط: دار الفكر) 

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(وكره نفل) قصدا ولو تحية مسجد (وكل ما كان واجبا) لا لعينه بل (لغيره) وهو ما يتوقف وجوبه على فعله (كمنذور وركعتي طواف)

وسجدتي سهو (والذي شرع فيه) في وقت مستحب أو مكروه (ثم أفسده و) لو سنة الفجر (بعد صلاة فجر و) صلاة (عصر) ولو المجموعة بعرفة (لا) يكره (قضاء فائتة و) لو وترا،

(قوله: بعد صلاة فجر وعصر) متعلق بقوله وكره أي وكره نفل إلخ بعد صلاة فجر وعصر: أي إلى ما قبيل الطلوع والتغير بقرينة قوله السابق لا ينعقد الفرض إلخ، ولذا قال الزيلعي هنا: المراد بما بعد العصر قبل تغير الشمس، وأما بعده فلا يجوز فيه القضاء أيضا وإن كان قبل أن يصلي العصر."

(‌‌كتاب الصلاة، ج:1، ص:174، ط:سعيد)

وفيه أيضاً:

"‌وجميع ‌أوقات ‌العمر وقت للقضاء إلا الثلاثة المنهية...(قوله إلا الثلاثة المنهية) وهي الطلوع والاستواء والغروب ح."

(‌‌كتاب الصلاة، ‌‌باب قضاء الفوائت، ج:2، ص:66، ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144504100350

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں