بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 شوال 1445ھ 17 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قضا نماز پڑھنے کا طریقہ


سوال

قضا نمازوں کو کس طرح پڑھا جاۓ؟ کوئی وقت متعین ہے ؟

جواب

قضا نماز  تین مکروہ اوقات کے علاوہ ہر وقت پڑھی جا سکتی ہے، وہ  تین اوقات درج ذیل ہیں:

1- طلوعِ شمس، یعنی جس وقت سورج طلوع ہونا شروع ہو، اس وقت سے لے کر جب تک سورج ایک نیزہ کے بقدر بلند نہ ہوجائے، تقریباً دس منٹ۔

2-  استواءِ شمس ( یعنی نصف النہار کا وقت) یعنی  جب دوپہر کے وقت سورج بالکل سر پر آجائے، احتیاطاً اس سے پانچ منٹ پہلے اور پانچ منٹ بعد نماز نہیں پڑھنی چاہیے، یہ بھی تقریباً دس منٹ کا وقت ہے۔

3- غروبِ شمس، یعنی عصر کی نماز کے بعد سورج غروب ہونے سے پہلے جب  زرد پڑ جاتاہے، اس وقت سے لے کر سورج غروب ہونے تک۔

اس کے علاوہ باقی کسی بھی وقت میں پڑھ سکتے ہیں۔  البتہ عصر اور فجر کی نماز کے بعد اور صبح صادق کے بعد فجر کی نماز سے پہلے لوگوں کے سامنے قضا نماز نہیں پڑھنی چاہیے، اگر ان اوقات میں قضا نماز پڑھنی ہو تو ایسی جگہ پڑھے جہاں لوگ نہ دیکھیں، اس لیے کہ ان اوقات میں نفل نماز ادا کرنا منع ہے، اب اگر لوگوں کے سامنے قضا نماز پڑھے گا تو دیکھنے والے سمجھ جائیں گے کہ اس وقت جب کہ نفل پڑھنا جائز نہیں ہے تو یہ قضا نماز پڑھ رہا ہوگا، اس سے اپنی پردہ دری لازم آئے گی؛  کیوں کہ  نماز کا قضا ہونا عیب کی بات ہے جس پر اللہ نے پردہ ڈالا ہوا ہے تو آدمی کو خود یہ عیب ظاہر کر کے اللہ کے ڈالے ہوئے پردے کو چاک نہیں کرنا چاہیے۔

قضا نماز کی نیت  میں ضروری ہے کہ جس نماز کی قضا پڑھی جا رہی ہے اس کی مکمل تعیین کی جائے یعنی فلاں دن کی فلاں نماز کی قضا پڑھ رہا ہوں، مثلاً:  پچھلے جمعہ کے دن کی فجر کی نماز کی قضا پڑھ رہا ہوں۔  البتہ اگر یاد نہ ہونے یا فوت شدہ نمازیں زیادہ ہونے کی وجہ سے اس طرح متعین کرنا مشکل ہو تو اس طرح بھی نیت کی جاسکتی ہے کہ مثلاً: جتنی فجر کی نمازیں قضاہوئی ہیں ان میں سے پہلی  فجر کی نماز ادا کر رہا ہوں، یا مثلاً: جتنی ظہر کی نمازیں قضا ہوئی ہیں ان میں سے پہلی ظہر کی نماز ادا کر رہا ہوں۔ اسی طرح یوں بھی نیت کی جاسکتی ہے کہ جتنی ظہر کی نمازیں قضا ہوئیں ان میں سے سب آخری ظہر کی نماز ادا کررہاہوں۔

قضا نمازوں میں صرف فرض پڑھنے ہوتے ہیں، سنت نہیں، البتہ نمازِ وتر واجب ہے ، اس لیے عشاء کی قضاکرتے  ہوئے وتر کی قضا کرنا بھی لازم ہے۔

الفتاوى الهندية (1/ 52):

" ثلاث ساعات لاتجوز فيها المكتوبة و لا صلاة الجنازة و لا سجدة التلاوة: إذا طلعت الشمس حتى ترتفع و عند الانتصاف إلى أن تزول و عند احمرارها إلى أن يغيب، إلا عصر يومه ذلك فإنه يجوز أداؤه عند الغروب ... هكذا في التبيين. و لايجوز فيها قضاء الفرائض و الواجبات الفائتة عن أوقاتها، كالوتر. هكذا في المستصفى و الكافي."

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 76):

"كثرت الفوائت نوى أول ظهر عليه أو آخره.

(قوله: كثرت الفوائت إلخ) مثاله: لو فاته صلاة الخميس والجمعة والسبت فإذا قضاها لا بد من التعيين؛ لأن فجر الخميس مثلاً غير فجر الجمعة، فإن أراد تسهيل الأمر، يقول: أول فجر مثلاً، فإنه إذا صلاه يصير ما يليه أولاً، أو يقول: آخر فجر، فإنّ ما قبله يصير آخراً، و لايضرّه عكس الترتيب؛ لسقوطه بكثرة الفوائت".

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144205200731

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں