بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قضا نماز کی ادائیگی کا ثبوت اور حکم


سوال

قضا   نماز ادا کرنے کے حکم پر کوئی صحیح  حدیث  بتادیجیے!

جواب

کسی بھی مسلمان کے لیے بغیر عذر نماز  چھوڑنا یا قضا کردینا جائز  نہیں ہے، لہٰذا بغیر عذر کے نماز قضا کرنے کی صورت میں اسے چاہیے کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کے حضور سچے دل سے اس  جرم عظیم پر توبہ و استغفار کرے اور آئندہ کے لیے  پکا عزم کرے کہ اب کوئی بھی نماز جان بوجھ کر قضا نہیں کرے گا، توبہ کرنے کے بعد گزشتہ فوت شدہ نماز کی قضا پڑھنا بھی لازم ہے، صرف توبہ کرلینے سے فوت شدہ نماز  ذمے  سے معاف نہیں ہوگی۔ اسی طرح جس شخص کی کسی عذر  (بیماری یا میدانِ جہاد میں مشغولیت  وغیرہ) کی وجہ سے نماز قضا ہوجائے اس پر بھی لازم ہے کہ  وہ ان نمازوں کی قضا کرے۔

رسول اللہ  ﷺ  سے نمازوں کی قضا قولًا اور عملًا دونوں طرح ثابت ہے،  حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  جو  شخص نماز کو بھول جائے تو  جب اس کو یاد آئے فوراً پڑھ لے، اس کا سوائے اس کے کوئی کفارہ نہیں۔  اور بعض روایات میں ہے: جو شخص نماز بھول جائے یا اس وقت سوجائے، تو جب اس کو یاد آئے فورًا پڑھ لے۔ اور بعض روایات میں ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ ﷺ سے  اس مسئلے کے بارے میں پوچھا کہ کوئی شخص نماز کے وقت سوجائے تو کیا حکم ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نیند آجانے میں (آدمی کی) کوتاہی نہیں ہے، کوتاہی تو بیداری کی حالت میں ہے، لہٰذا اگر کوئی شخص نماز بھول جائے یا نماز کے وقت اس کی آنکھ لگ جائے تو اسے پڑھ لے جب اُسے یاد آئے۔

نیز دو مرتبہ  عملی طور پر نمازوں کی قضا بھی رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے، اور دونوں ہی واقعے انتہائی مشہور  ہیں، ایک  "لیلۃ التعریس" کے واقعے سے مشہور ہے، اور دوسرا موقع "غزوۂ خندق" ہے،  اور غزوۂ خندق کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کا کفارِ مکہ کو بددعا دیتے ہوئے یہ ارشادِ مبارک بھی صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ "اللہ تعالیٰ ان کے گھروں اور قبروں کو آگ سے بھر دے، جیسے انہوں نے ہمیں "صلاۃ الوسطیٰ" (عصر) کی نماز ادا کرنے سے مشغول رکھا، یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا۔ اور پھر عشاء کے وقت میں  ظہر، عصر اور مغرب کی نماز قضا کے طور پر ادا فرمائی، اور عشاء بھی معمول کے وقت سے مؤخر ہوگئی تھی۔ 

بہرحال نماز رہ جانے کی صورت میں رسول اللہ ﷺ کا قضا کا حکم دینا اور لیلۃ التعریس والے واقعے میں فجر کی نماز باجماعت اہتمام سے پڑھنا اور غزوۂ خندق میں کفار کے سخت حملے کی وجہ سے تین نمازیں قضا ہونے کے باوجود انہیں اہتمام سے ادا فرمانا اور کفارِ مکہ کو بددعا دینا یہ سب قضا نماز کے پڑھنے کے وجوب کی دلیلیں ہیں۔

سنن أبى داود (1/ 169):

"عن أنس بن مالك أن النبى صلى الله عليه وسلم قال: «من نسى صلاةً فليصلها إذا ذكرها لا كفارة لها إلا ذلك."

«صحيح مسلم» (1/ 471):

"عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم حين قفل من غزوة خيبر، سار ليله حتى إذا أدركه الكرى عرس، وقال لبلال: «اكلأ لنا الليل»، فصلى بلال ما قدر له، ونام رسول الله صلى الله عليه وسلم وأصحابه، فلما تقارب الفجر استند بلال إلى راحلته مواجه الفجر، فغلبت بلالا عيناه وهو مستند إلى راحلته، فلم يستيقظ رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولا بلال، ولا أحد من أصحابه حتى ضربتهم الشمس، فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم أولهم استيقاظا، ففزع رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: «أي بلال» فقال بلال: أخذ بنفسي الذي أخذ - بأبي أنت وأمي يا رسول الله - بنفسك، قال: «اقتادوا»، فاقتادوا رواحلهم شيئا، ثم توضأ رسول الله صلى الله عليه وسلم، وأمر بلالا فأقام الصلاة، فصلى بهم الصبح، فلما قضى الصلاة قال: «‌من ‌نسي ‌الصلاة فليصلها إذا ذكرها»، فإن الله قال: {أقم الصلاة لذكري} [طه: 14] قال يونس: وكان ابن شهاب: «يقرؤها للذكرى»."

«مصنف ابن أبي شيبة» (1/ 411):

«عن أنس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من نسي صلاة أو ‌نام ‌عنها فكفارته أن يصليها إذا ذكرها».

«مسند أحمد» (19/ 34 ط الرسالة):

«عن أنس بن مالك قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من نسي صلاة أو ‌نام ‌عنها، فإنما كفارتها أن يصليها إذا ذكرها.»

«سنن ابن ماجه» (1/ 228):

"عن أبي قتادة، قال: ذكروا تفريطهم في النوم فقال: ناموا حتى طلعت الشمس، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ليس في النوم تفريط، إنما التفريط في اليقظة، فإذا نسي أحدكم صلاة، أو ‌نام ‌عنها، فليصلها إذا ذكرها، ولوقتها من الغد» قال: عبد الله بن رباح، فسمعني عمران بن الحصين، وأنا أحدث بالحديث، فقال: يا فتى انظر كيف تحدث، فإني شاهد للحديث مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فما أنكر من حديثه شيئا."

«مسند أبي داود الطيالسي» (1/ 93):

"عن علي، عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه كان يوم الأحزاب على فرضة من فراض الخندق فقال: «‌شغلونا ‌عن صلاة الوسطى حتى غربت الشمس ملأ الله قبورهم وبيوتهم نارًا أو قبورهم وبطونهم نارًا."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212202274

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں