بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

3 جمادى الاخرى 1446ھ 06 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

قضا نماز ادا کرنے کا طریقہ


سوال

قضاء نمازوں کا کیسے پتہ لگائیں ۔ اور قضاء عمری ادا کرنے کا مختصر طریقہ بتا دیں ؟ میری تاریخ پیدائش 20/08/1971 ہے۔ میری شادی 2003 میں ہوئی ۔ میرا سوال یہ ہے کہ کتنے سال کی عمر سے قضا نمازیں پڑھنی ہونگی ۔ اور کل کتنے سالوں کی قضا کریں گے ۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ بچپن سے جوانی تک نمازیں تو پڑھتا تھا مگر مکمل پابندی نہیں تھی اور نہ ہی نمازیں یاد ہیں کہ کتنی پڑھیںِ اور کتنی چھوڑیں ۔ الحمدللہ شادی کے بعد سے کوئی نماز نہیں چھوڑی اگر کوئی رہ بھی جائے تو فوراً قضا کر لیتا ہوں ۔ میرا تیسرا سوال یہ ہے کہ قضاء عمری ادا کرنے کا مختصر طریقہ بتا دیں ۔ جزاک اللّہ خیرا

جواب

قضا نماز ادا کرنے کا وہی طریقہ ہے جو  فرض نماز ادا کرنے کا ہے، البتہ  اس میں قراءت کرتے ہوئے واجب قراءت (یعنی  سورۂ فاتحہ اور اس کے ساتھ  کوئی تین مختصر آیات یا ایک بڑی آیت تلاوت کرنے)  اور رکوع وسجدے میں تین تسبیحات پر اکتفا کرلیا جائے تو  جائز ہے، رکوع اور سجدے میں تین سے کم تسبیحات پڑھنے سے بھی نماز ادا ہوجائے گی، لیکن ایسا کرنا مکروہ ہے۔

نیز متعدد قضا نمازوں کو ادا کرنے  کا طریقہ یہ ہے کہ آپ کی جتنی نمازیں قضا ہوگئیں ہیں  اُن کاحساب کریں، اگر قضا نمازوں کی تعداد معلوم ومتعین ہو تو ترتیب سے ان نمازوں کو قضا کرنا چاہیے، اور اگر متعین طور پر قضاشدہ نمازوں کی تعداد معلوم نہ ہو اور  یقینی حساب بھی ممکن نہ ہو  تو غالب گمان کے مطابق ایک اندازا اور تخمینہ لگالیں اورجتنے سالوں یامہینوں کی نمازیں قضاہوئی ہیں احتیاطاً اس تعداد سے کچھ بڑھا کر اُسے کہیں لکھ کر رکھ لیں، اس کے بعد فوت شدہ نمازیں قضا کرنا شروع کردیں۔

قضا  نماز کی نیت  میں ضروری ہے کہ جس نماز کی قضا  پڑھی جا رہی ہے اس کی مکمل تعیین کی جائے، یعنی فلاں دن کی فلاں نماز کی قضا پڑھ رہا ہوں، مثلاً  پچھلے جمعہ کے دن کی فجر کی نماز کی قضا پڑھ رہا ہوں، البتہ اگر متعینہ طور پر قضا نماز کا دن اور وقت معلوم نہ ہو نے کی وجہ سے اس طرح متعین کرنا مشکل ہو تو اس طرح بھی نیت کی جاسکتی ہے کہ مثلاً جتنی فجر کی نمازیں میں نے قضا  کی ہیں ان میں سے پہلی  فجر کی نماز ادا کر رہا ہوں یا مثلاً جتنی ظہر  کی نمازیں قضا ہوئی ہیں ان میں سے پہلی ظہر  کی نماز ادا کر رہا ہوں، اسی طرح بقیہ نمازوں میں بھی نیت کریں، اسی طرح پہلی کے بجائے اگر آخری کی نیت کریں تو بھی درست ہے۔

ایک دن کی تمام فوت شدہ نمازیں یا کئی دن کی فوت شدہ نمازیں ایک وقت میں پڑھ لیں، یہ بھی درست ہے۔

نیزایک آسان صورت فوت شدہ نمازوں کی ادائیگی کی  یہ بھی ہے کہ ہر وقتی فرض نمازکے ساتھ اس وقت کی قضا نمازوں میں سے ایک پڑھ لیاکریں، (مثلاً: فجر کی وقتی فرض نماز ادا کرنے کے ساتھ قضا نمازوں میں سے فجر کی نماز بھی پڑھ لیں، ظہر کی وقتی نماز کے ساتھ ظہر کی ایک قضا نماز پڑھ لیا کریں)،  جتنے برس یاجتنے مہینوں کی نمازیں قضاہوئی ہیں اتنے سال یامہینوں تک اداکرتے رہیں، جتنی قضا نمازیں پڑھتے جائیں اُنہیں لکھے ہوئے ریکارڈ میں سے کاٹتے جائیں، اِس سے ان شاء اللہ مہینہ میں ایک مہینہ کی اور سال میں ایک سال کی قضا نمازوں کی ادائیگی بڑی آسانی کے ساتھ  ہوجائے گی ۔

یہ بھی ملحوظ رہے کہ دن رات میں تین ممنوعہ اوقات کے علاوہ ہر وقت قضا نماز ادا کی جاسکتی ہے، البتہ عصر یا فجر کی نماز کے بعد قضا ادا کرنی ہو تو مسجد میں ادا نہیں کرنی چاہیے۔

تین ممنوعہ اوقات سے مراد یہ ہیں: (1) طلوعِ شمس: یعنی سورج طلوع ہونے سے لے کر ایک نیزہ بلند ہونے تک، جس کا اندازا تقریباً دس منٹ ہے۔ (2) استواءِ شمس: یعنی دوپہر کے وقت سورج جب عین سر پر آجائے،  احتیاطاً اس سے پانچ منٹ پہلے اور پانچ منٹ بعد نماز نہ پڑھی جائے۔ (3) عصر کے بعد سورج زرد پڑنے سے لے کر سورج غروب ہونے تک۔

الفتاوى الهندية"  میں ہے:

"ثلاث ساعات لاتجوز فيها المكتوبة ولا صلاة الجنازة ولا سجدة التلاوة: إذا طلعت الشمس حتى ترتفع وعند الانتصاف إلى أن تزول وعند احمرارها إلى أن يغيب، إلا عصر يومه ذلك فإنه يجوز أداؤه عند الغروب.... هكذا في التبيين. ولايجوز فيها قضاء الفرائض والواجبات الفائتة عن أوقاتها، كالوتر. هكذا في المستصفى والكافي".

(كتاب الصلوة، الباب الأول في مواقيت الصلاة،  الفصل الثالث...الخ، 52/1، رشيدية)

الدر المختارمیں ہے:

"كثرت الفوائت نوى أول ظهر عليه أو آخره.... وفي الرد:(قوله: كثرت الفوائت إلخ) مثاله: لو فاته صلاة الخميس والجمعة والسبت فإذا قضاها لا بد من التعيين؛ لأن فجر الخميس مثلاً غير فجر الجمعة، فإن أراد تسهيل الأمر، يقول: أول فجر مثلاً، فإنه إذا صلاه يصير ما يليه أولاً، أو يقول: آخر فجر، فإنّ ما قبله يصير آخراً، ولايضره عكس الترتيب؛ لسقوطه بكثرة الفوائت".

( الدر المختار مع ردا لمحتار، كتاب الصلوة، ‌‌باب قضاء الفوائت، فروع في قضاء الفوائت، 76/2، سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403100218

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں