بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قضاءِ حاجت کے بعد استنجا کیے بغیر پڑھی گئی نماز کا حکم


سوال

قضائے حاجت کے بعد استنجا نہیں کیا اور وضو کرکے نماز پڑھ لی، پھر بعد میں یاد آیا تو اس صورت میں نماز اور وضو کا کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ قضاءِ  حاجت کے بعد اگرنجاست مخرج سے متجاوزنہیں ہوئی تو پانی سے استنجاکرنا  سنت ہے اوراگرمتجاوزہوگئی تو اگر قدر درہم سے زائدنہیں ہوئی تو دھونا واجب ہے اوراگرزائدہوگئی تودھونافرض ہے؛  لہٰذا اگر قضاءِ  حاجت کے بعد بغیر استنجاکیے وضو کر کے نماز پڑھ لی تو  آخری صورت میں نمازباطل ہوگی  اوردوسری صورت میں مکروہِ تحریمی ہوگی  اور پہلی صورت  میں مکروہِ تنزیہی۔ 

یہ تفصیل اس وقت ہے جب کہ کپڑے (شلوار ) پر نجاست لگی ہی نہ ہو یا اس کو دھو کر پاک کرلیا ہو، لیکن اگر نجاست کپڑے پر بھی لگی ہوئی ہو اور اسے دھوئے بغیر نماز پڑھ لی تو اگر کپڑے پر لگی ہوئی نجاست ایک درھم سے زیادہ ہو تو نماز نہیں ہوئی، اور اگر نجاست ایک درھم یا اس سے کم ہو تو  معلوم ہونے کے باوجود دھوئے بغیر اس کپڑے میں نماز پڑھنے کی صورت میں نماز ہو تو جائے گی، لیکن مکروہِ تحریمی ہوگی، نماز کا وقت باقی ہو تو پاکی کے اہتمام کے ساتھ ایسی نماز کا اعادہ واجب ہوتاہے، اور وقت گزرنے کے بعد اعادہ مستحب ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 335):

"إزالة نجس عن سبيل فلايسنّ من ريح وحصاة ونوم وفصد (وهو سنة) مؤكدة مطلقا، وما قيل من افتراضه لنحو حيض ومجاوزة مخرج فتسامح.

 (قوله: وهو سنة مؤكدة) صرح به في البحر عن النهاية ثم عزاه أيضًا إلى الأصل وعلله في الكافي بمواظبته عليه صلى الله عليه وسلم. ونقل في الحلية الأحاديث الدالة على المواظبة وما يصرفها عن الوجوب فراجعه. وعليه فيكره تركه كما في الفتح مستدركًا على ما في الخلاصة من نفي الكراهة، ونحوه في الحلية، وأوضح المقام الشيخ إسماعيل في شرحه على الدرر فراجعه. ثم رأيته في البدائع صرح بالكراهة. (قوله: مطلقًا) سواء كان الخارج معتادًا أم لا رطبًا أم لا ط وسواء كان بالماء أو بالحجر، وسواء كان من محدث أو جنب أو حائض أو نفساء على ما ذكره هنا. (قوله: وما قيل إلخ) دفع لما يخالف الإطلاق المذكور، والقائل بذلك صاحب السراج والاختيار وخزانة الفقه والحاوي القدسي والزيلعي وغيرهم وأقرهم في الحلية، واعترضهم في البحر بأنه تسامح؛ لأنه من باب إزالة الحدث إن لم يكن على المخرج شيء، وإن كان فهو من باب إزالة النجاسة الحقيقية. اهـ.

أقول: لا شك أن غسل ما على المخرج في الجنابة يسمى إزالة نجس عن سبيل، فقد صدق عليه تعريف الاستنجاء وإن كان فرضا. وأما إذا تجاوزت النجاسة مخرجها، فإن كان المراد به غسل المتجاوز إذا زاد على الدرهم، فكونه تسامحا ظاهر؛ لأنه لا يصدق عليه التعريف المذكور وإن كان المراد غسل ما على المخرج عند التجاوز بناء على قول محمد الآتي فلا تسامح، يدل عليه ما في الاختيار من أن الاستنجاء على خمسة أوجه: اثنان واجبان:

أحدهما: غسل نجاسة المخرج في الغسل من الجنابة والحيض والنفاس كي لاتشيع في بدنه.

والثاني: إذا تجاوزت مخرجها يجب عند محمد قل أو كثر وهو الأحوط؛ لأنه يزيد على قدر الدرهم، وعندهما يجب إذا جاوزت قدر الدرهم؛ لأن ما على المخرج سقط اعتباره، والمعتبر ما وراءه.

والثالث: سنة، وهو إذا لم تتجاوز النجاسة مخرجها.

والرابع: مستحب، وهو ما إذا بال ولم يتغوط فيغسل قبله.

والخامس: بدعة، وهو الاستنجاء من الريح. اهـ."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144206200570

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں