بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قیامت کے حساب سے پہلے عذاب قبر کیوں؟


سوال

علما حضرات کہتے ہیں کہ جو بندہ گناہ گار ہوگا تو قبر میں اسے عذاب دیا جائے گا اور پھر یہ بھی کہتے ہیں حساب قیامت کے دن کیا جائے گا تو کیا حساب سے پہلے سزا دیا جائے گا؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں پوری جزا و سزا تو آخرت ہی میں ملے گی جب کہ ہر شخص کا فیصلہ اس کے اعمال کے مطابق چکایا جائے گا ، لیکن بعض اعمال کی کچھ جزا و سزا دنیا میں بھی ملتی ہے جیسا کہ بہت سی آیات و احادیث میں یہ مضمون آیا ہے اور تجربہ و مشاہدہ بھی اس کی تصدیق  کرتا ہے ، اسی طرح بعض اعمال پر قبر میں بھی جزا و سزا ہوتی ہے ، اور یہ مضمون بھی احادیث متوترہ میں موجود ہے ۔ اس سے آپ کا یہ شبہ بھی ختم ہوگیا کہ ابھی مقدمہ پیش نہیں ہوا تو سزا کیسی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ کہ پوری سزا تو مقدمہ پیش ہونے اور فیصلہ چکائے جانے کے بعد ہی ہوگی ، برزخ میں جو سزا ہوگی اس کی مثال ایسی ہے جیسے مجرم  کو حوالات میں رکھا جاتا ہے ۔ علاوہ ازیں یہ بھی ممکن ہے کہ کچھ لوگوں کے لیے برزخ کی سزا کفارہ سیئات بن جائے جیسا کہ  دنیوی پریشانیاں اور مصیبتیں اہل ایمان کے لیے کفارہ سیئات ہیں ۔ بہر حال قبر کا عذاب و ثوا ب بر حق ہے اس پر ایمان لانا واجب ہے اور اس سے ہر مؤمن کو  پناہ مانگتے رہنا چاہیے ۔(آپ کے مسائل اور ان کا حل جلد ۲ ص:۴۱۹ ط:مکتبہ لدھیانوی)

اللہ تعالی کا ارشاد ہے 

"النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ ."(المؤمن: 46)

ترجمہ: ’’ وہ لوگ (برزخ میں) صبح اور شام آگ کے سامنے لائے جاتے ہیں، اور جس روز قیامت قائم ہوگی (حکم ہوگا) فرعون والوں کو (مع فرعون کے) نہایت سخت آگ میں داخل کرو۔‘‘ 

اللہ تعالی کا ارشادہے:

{"حَتَّى إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ .لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ كَلا إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا وَمِنْ وَرَائِهِمْ بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ .فَإِذَا نُفِخَ فِي الصُّورِ فَلا أَنْسَابَ بَيْنَهُمْ يَوْمَئِذٍ وَلا يَتَسَاءَلُونَ."}(المؤمنون: 99 ۔ 101)

ترجمہ: ’’یہاں تک کہ جب پہنچے ان میں کسی کو موت، کہے گا: اے رب مجھ کو پھر بھیج دو، شاید کچھ میں بھلا کام کرلوں اس میں جو پیچھے چھوڑ آیا، ہرگز نہیں، یہ ایک بات ہے کہ وہی کہتاہے، اور ان کے پیچھے پردہ ہے، اس دن تک کہ اٹھائے جائیں، پھر جب پھونک ماریں صور میں تو نہ قرابتیں ہیں ان میں اس دن اور نہ ایک دوسرے کو پوچھے۔ ‘‘ 

صحیح البخاری میں ہے:

"عن ابن عباس، قال: مر النبي صلى الله عليه وسلم بحائط من حيطان المدينة، أو مكة، فسمع صوت إنسانين يعذبان في قبورهما، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «يعذبان، وما يعذبان في كبير» ثم قال: «بلى، كان أحدهما لا يستتر من بوله، وكان الآخر يمشي بالنميمة». ثم دعا بجريدة، فكسرها كسرتين، فوضع على كل قبر منهما كسرة، فقيل له: يا رسول الله، لم فعلت هذا؟ قال: «لعله أن يخفف عنهما ما لم تيبسا» أو: «إلى أن ييبسا»."

(کتاب الوضوء ، باب: من الکبائر ان لا یستتر من بوله جلد 1 ص: 53 ط: دارطوق النجاۃ)

ترجمہ: "حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ یا مکہ کے کسی باغ سے گزرے، اتنے میں دو انسانوں کی آواز سنی جن کو قبر میں عذاب دیا جارہا تھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ان دونوں کو عذاب ہورہا ہے اور کسی بڑے کام کی وجہ سے عذاب نہیں ہورہا ہے، (بلکہ ایسی معمولی باتوں پر جن سے بچ سکتے تھے)؛ پھر آپ نے فرمایا: ان دونوں میں سے ایک پیشاب سے نہیں بچتا تھا اور دوسرا چغلی کرتا پھرتا تھا؛ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک تر ٹہنی منگائی پھر اس کے دو ٹکڑے کیے، پھر ایک ایک ٹکڑا دونوں قبروں پر رکھ دیا، صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے ایسا کیوں کیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: شاید ان دونوں کا عذاب ان کے سوکھنے تک ہلکا کردیا جائے۔"

 فقط و اللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144405101304

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں