بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

قے کی حالت ہو جائے تو روزے کا حکم


سوال

اگر سحری کے بعد قے والی حالت ہو تو کیا روزہ ٹوٹ جاتا ہے ؟

جواب

(1)اگر روزے کے دوران بلا اختیار اور بلا قصد خود بخود قے ہوگئی تو روزہ فاسد نہیں ہوگا، چاہے قے تھوڑی سی ہوئی یا زیادہ، دونوں صورتوں میں روزہ برقرار رہے گا۔

(2) اگر اپنے اختیار سے قے کی اور منہ بھر کر قے ہوگئی تو روزہ فاسد ہوگیا۔

(3) اگر اپنے اختیار سے قے کی، لیکن منہ بھر کر قے نہیں ہوئی تو روزہ فاسد نہیں ہوگا۔

(4) اگر اچانک تھوڑی سی قے آئی پھر  حلق میں واپس چلی گئی تو روزہ فاسد نہیں ہوگا۔

(5) اگر قے منہ بھر کر آئی اور ایک  چنے کے برابر یا اس سے زائد جان بوجھ کر اپنے اختیار سے واپس لوٹالی تو روزہ فاسد ہوجائے گا، قضا لازم ہوگی، کفارہ نہیں۔

(6) اگر کسی کو قے ہوئی اور وہ یہ سمجھا کہ میرا روزہ ٹوٹ گیا، اس گمان پر قصداً کھا لیا اور روزہ توڑ دیا تو بھی قضا واجب ہے، کفارہ واجب نہیں، کیوں کہ روزہ توڑنے کا ارادہ نہیں تھا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(‌وإن ‌ذرعه القيء)...(لا يفطر مطلقا) ملأ أو لا".

(كتاب الصوم، باب ما يفسد الصوم وما لا يفسده، 414/2، ط: سعيد)

ایضاً:

"(وإن استقاء) أي طلب القيء (عامدا) أي متذكرا لصوم (إن كان ملء الفم فسد بالإجماع)".

(كتاب الصوم، باب ما يفسد الصوم وما لا يفسده، 414/2، ط: سعيد)

ایضاً:

"(‌وإن ‌ذرعه القيء...(فإن عاد) بلا صنعه (و) لو (هو ملء الفم مع تذكره للصوم لا يفسد) خلافا للثاني___(قوله: لا يفسد) أي عند محمد وهو الصحيح".

(كتاب الصوم، باب ما يفسد الصوم وما لا يفسده، 414/2، ط: سعيد)

ایضاً: 

("وإن أعاده) أو قدر حمصة منه فأكثر حدادي (أفطر إجماعا) ولا كفارة (إن ملأ الفم وإلا لا) هو المختار".

(كتاب الصوم، باب ما يفسد الصوم وما لا يفسده، 414/2، ط: سعيد)

ایضاً: 

"‌وكذا ‌لو ‌ذرعه القيء وظن أنه يفطره فأفطر، فلا كفارة عليه لوجود شبهة الاشتباه بالنظير فإن القيء والاستقاء متشابهان؛ لأن مخرجهما من الفم".

(كتاب الصوم، باب ما يفسد الصوم وما لا يفسده،  402/2، ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144409100009

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں