بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قومی ترانہ کے الفاظ سایہ خدائےذو الجلال کا معنی/اللہ تعالی کے لیے سایہ ثابت کرنا


سوال

1۔میرا سوال یہ ہے کہ قومی ترانہ کے آخری الفاظ "سایہ خدائے ذوالجلال "کفریہ کلمات تو نہیں؟ اگر نہیں ہیں تو اسکا معنی کیا ہوگا ،کہیں ترانے کے ان الفاظ سے اللہ تعالی کے لئے سایہ کا ادراک تو لازم نہیں آتا ؟

2۔عقائد کے لحاظ سے اللہ تبارک و تعالی کے لیے سایہ کا تصور کیسا ہے ؟

جواب

1۔ "سایہ"  کا لفظ اردواورفارسی زبان میں  مستعمل  ایک معروف ومشہور لفظ ہے، لغت میں "سایہ"کے کئی معانی آتے ہیں: پرچھائیں،پرتو،پناہ،حفاظت،حمایت وغیرہ،حدیثِ مبارک میں بھی "سایہ "کی نسبت اللہ تعالی کی طرف کی گئی ہے،چنانچہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سات طرح کے لوگوں کو اللہ تعالیٰ اپنے سایہ میں اس دن جگہ دے گا جس دن اس کے سایہ کے سوا کوئی اور سایہ نہ ہوگا"، اس حدیث کی تشریح میں  بعض محدثین نے "اللہ تعالی کے سایہ" سے اللہ تعالی کی حفاظت اور حمایت مراد لیا ہے۔

مذکورہ تفصیل کی رو سے  پاکستان کے قومی ترانہ کے الفاظ "سایہ خدائے ذو الجلال"کفریہ کلمات نہیں ہیں بلکہ دعائیہ کلمات ہیں، جن کا مطلب یہ ہے کہ یہ  مملکت (پاکستان) ہمیشہ اللہ تعالی کی حفاظت میں رہے، لہذا اس جملہ کو کفریہ سمجھنا غلط ہے اور اس جملہ سے اللہ تعالی کے سایہ کا ادراک بھی لازم نہیں آتا۔

2۔ اللہ رب العزت کی ذات مجسم نہیں ہے، باری تعالی کی ذات جسم سے پاک  ہے، اسی طرح اللہ جل شانہ کی ذات ہر اس چیز سے بھی پاک ہے، جس کا انسان محتاج ہوتا ہے۔

لہذا عقیدے کے لحاظ سےاللہ تعالی کے لیےحقیقی  سایہ (بمعنی پرچھائی) تصور یا ثابت کرناتو  موجبِ کفر ہے، البتہ سایہ کا وہ معنی جو پہلے جزو میں ذکر کیا گیا ہے، اللہ تعالٰی کے لیے مراد لینا بلا شبہ درست ہے۔ 

صحيح البخاری" ميں ہے:

"عن ‌أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «سبعة ‌يظلهم ‌الله في ظله يوم لا ظل إلا ظله: الإمام العادل، وشاب نشأ في عبادة ربه، ورجل قلبه معلق في المساجد، ورجلان تحابا في الله اجتمعا عليه وتفرقا عليه، ورجل طلبته امرأة ذات منصب وجمال، فقال إني أخاف الله، ورجل تصدق، أخفى حتى لا تعلم شماله ما تنفق يمينه، ورجل ذكر الله خاليا ففاضت عيناه."

(كتاب الاذان،باب من جلس في المسجد ينتظر الصلاة وفضل المساجد،ج:1،ص:133،ط:دار طوق النجاة)

ترجمہ:"ضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، فرماتے تھے: سات طرح کے لوگوں کو اللہ تعالیٰ اپنے سایہ میں اس دن جگہ دے گا جس دن اس کے سایہ کے سوا کوئی اور سایہ نہ ہوگا: 1:- امام عادل، 2:- وہ جوان جس کی نشو ونما ہی اللہ تعالیٰ کی عبادت میں ہوئی،3:- وہ شخص جس کا دل مسجدوں میں اَٹکا ہوا ہے، 4:- وہ دو شخص جو آپس میں اللہ کے لیے محبت رکھتے ہیں، اسی محبت پر ملتے اور اسی پر جدا ہوتے ہیں، 5:-وہ شخص جس کو کسی جاہ وجمال والی عورت نے بلایا اور اس نے کہہ دیا کہ میں تو اللہ سے ڈرتا ہوں، 6:- وہ شخص جس نے اس طرح چھپا کر صدقہ دیا کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی پتہ نہ چل سکا کہ دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا، 7:- وہ شخص جس نے تنہائی میں اللہ کو یاد کیا اور اس کی آنکھیں بہنے لگ گئیں۔"

فتح الباری شرح صحیح البخاری" میں ہے:

"قوله في ظله قال عياض إضافة الظل إلى الله إضافة ملك وكل ظل فهو ملكه كذا قال وكان حقه أن يقول إضافة تشريف ليحصل امتياز هذا على غيره كما قيل للكعبة بيت الله مع أن المساجد كلها ملكه وقيل المراد بظله كرامته وحمايته كما يقال فلان ‌في ‌ظل الملك."

(، باب من جلس في المسجد ينتظر الصلاة،ج:2،ص:144،ط:دار المعرفة)

مجمع الانھر شرح ملتقی الابحر" میں ہے:

"(ثم إن ألفاظ الكفر أنواع) (الأول فيما يتعلق بالله تعالى) إذا وصف الله تعالى بما لا يليق به أو سخر باسم من أسمائه أو بأمر من أوامره أو أنكر صفة من صفات الله تعالى أو أنكر وعده أو وعيده أو جعل له شريكا أو ولدا أو زوجة أو نسبه إلى الجهل أو العجز أو النقص أو أطلق على المخلوق من الأسماء المختصة بالخالق نحو القدوس والقيوم والرحمن وغيرها يكفر."

(باب المرتد،الفاظ الكفر انواع،ج:1،ص:690،ط:دار احياء التراث العربي)

شرح العقائد النسفیۃ   "میں ہے:

"ولا جسم لانه مترکب ومتحیز وذالک امارة الحدوث."

(ص:39،ط: قدیمی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407100854

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں