بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قومی بچت اسکیم میں رقم جمع کر کے منافع حاصل کرنا


سوال

عرض یہ کہ پچھلےسال ہسپتال کے ایک حادثہ میں میرےشوہرکاانتقال ہوگیاتھا،ہسپتال انتظامیہ نےمجھ بیوہ کواورمیری 3 چھوٹی معصوم بچیوں کوباہمی رضامندی سے 30 لاکھ کی رقم بطورخون بہاکےاداکی ہے،یہ رقم اِس وقت میرےسسرال والوں یعنی میرےشوہرکےبھائیوں کےپاس بطورِامانت ہے،شوہرکےانتقال کےبعدسےان کارویہ میرےساتھ اچھانہیں ہے،اورہماری یہ رقم ان لوگوں نےزبردستی اپنےپاس یہ کہہ کررکھی ہےکہ"ہم اس رقم سےبچییوں کے لیےکوئی مکان وغیرہ خریدیں گے"۔

جناب مفتی صاحب!آج کل کےزمانہ میں مناسب جگہ کاملنا،پھرمناسب کرایہ پرجاناویسےہی ایک مشکل بات ہے،مزیدیہ کہ میں ان سب معاملات کی متحمل نہیں ،کیوں کہ شوہرکےانتقال کےبعدسےمیرےحالات کافی سخت ہیں۔

والدصاحب کاانتقال ہوچکاہے،بھائی کوئی نہیں اورمیری 3 چھوٹی بیٹیاں ہیں ،جن کی وجہ  سےمیں خودکہیں ذریعۂ معاش تلاش نہیں کرسکتی۔

مجھےاپنےسسرال والوں کےبارےمیں یہ تشویش ہےکہ وہ میری یتیم بچیوں کےمال کوغصب نہ کرلیں،کیوں کہ یہ  لوگ مجھےکبھی اس معاملہ میں تسلّی بخش جواب نہیں دیتے۔

اس ساری صورتِ حال کوذکرکرنےکےبعدمیراسوال یہ ہےکہ جب تک میری بیٹیاں کچھ سنبھل جائیں،اورمیں خودکوئی ذریعۂ معاش تلاش کرلوں تب تک میں اس رقم کوقومی بچت اسکیم میں رکھ کراس سےآنےوالی رقم سےاپنی بچیوں کی کفالت کرسکتی ہوں؟ میری مجبوری بھی ،اوریہی ایک حربہ ہےجس سےمیری بچیوں کی امانت مجھےواپس مل سکے۔

اس رقم کوبینک میں جمع کراکرمنافع حاصل کرسکتےہیں،اوروہ بینک اسلامی بینک ہو؟

جواب

صورتِ مسئولہ ہسپتال کی انتظامیہ کی طرف سےملنے والی خون بہاکی رقم سائلہ کےشوہرکےورثاءمیں ان کی شرعی حصّوں کےمطابق تقسیم ہوگی،چوں کہ سائلہ اورسائلہ کی بچییاں بھی مرحوم کےورثاءمیں شامل ہیں،اس لیےسائلہ کےسسرال والوں کا ساری رقم زبردستی اپنےپاس رکھنااورسائلہ کےمطالبہ کےباوجود سائلہ اورسائلہ کی بچیوں كاحصہ اس كےحوالہ نہ كرناظلم ہے،جوسخت گناہ اورحرام ہے،لہٰذاسائلہ کےسسرال والوں پرلازم ہےکہ وہ سائلہ اوراس کی بچیوں کاحق انہیں واپس کرے،مرحوم كےخون بہا کی رقم اوردیگرجائیدادمیں ہروارث کاحصہ معلوم کرنے كےليےورثاءکی مکمل تفصیل لکھ کر دارالافتاء سے دوبارہ معلوم کرلیاجائے۔

سائلہ کےلیے  جائزنہیں کہ وہ اپنی اوربچییوں کی رقم کسی مروّجہ غیرسودی بینک یاقومی بچت اسکیم میں رکھے،اس کی بجائےسائلہ یہ رقم کسی معتمداورامانت دارتاجرکےساتھ کاروبارمیں لگادے۔

قرآن کریم میں باری تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا اتَّقُوا الله َ وَذَرُوْا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِيْنَ فَإِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَأْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللهِ وَرَسُوْلِه وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ أَمْوَالِكُمْ لَاتَظْلِمُوْنَ وَلَا تُظْلَمُوْنَ وَإِنْ كَانَ ذُوْ عُسْرَةٍ فَنَظِرَة إِلٰى مَيْسَرَةٍ وَأَنْ تَصَدَّقُوْا خَيْر لَّكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ﴾ (البقرة:الآية: 278 الي 280 )

ترجمہ: اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور جو کچھ سود کا بقایاہے اس کو چھوڑ دو اگر تم ایمان والے ہو، پھر اگرتم نہ کرو گے تو  اشتہار سن لو جنگ کا اللہ کی طرف سے اور اس کے رسول کی طر ف سے اور اگر تم توبہ کرلوگے تو  تم کو تمہارے اصل اموال مل جائیں گے، نہ تم کسی پر ظلم کرنے پاؤگے اور نہ تم پر ظلم کرنے پائے گا، اور اگر تنگ دست ہو تو مہلت دینے کا حکم ہے آسودگی تک اور یہ کہ معاف ہی کردو اور زیادہ بہتر ہے تمہارے لیے اگر تم کو خبر ہو۔(بیان القرآن )

حدیثِ  مبارک  میں ہے:

"عن جابر، قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا، ومؤكله، وكاتبه، وشاهديه» . وقال: «هم سواء»".

(مشکاة المصابیح،  باب الربوا، ص: 243، ط: قديمي)

ترجمہ: حضرت جابر رضی اللہ عنہ  روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے، کھلانے والے، سودی معاملہ لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی ہے، اور ارشاد فرمایا: یہ سب (سود کے گناہ میں) برابر ہیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) الثالث (خطأ وهو) نوعان: لأنه إما خطأ في ظن الفاعل ك (أن يرمي شخصا ظنه صيداً أو حربياً) أو مرتداً (فإذا هو مسلم أو) خطأ في نفس الفعل كأن يرمي (غرضاً) أو صيدا (فأصاب آدمياً) أو رمى غرضاً فأصابه ثم رجع عنه أو تجاوز عنه إلى ما وراءه فأصاب رجلاً أو قصد رجلاً فأصاب غيره أو أراد يد رجل فأصاب عنق غيره، ولو عنقه فعمد قطعاً أو أراد رجلاً فأصاب حائطاً ثم رجع السهم فأصاب الرجل فهو خطأ؛ لأنه أخطأ في إصابة الحائط ورجوعه سبب آخر والحكم يضاف لآخر أسبابه، ابن كمال عن المحيط. قال: وكذا لو سقط من يده خشبة أو لبنة فقتل رجلاً يتحقق الخطأ في الفعل ولا قصد فيه، فكلام صدر الشريعة فيه ما فيه. وفي الوهبانية: وقاصد شخص إن أصاب خلافه ... فذا خطأ والقتل فيه معذر

وقاصد شخص حالة النوم إن يمن ... فيقتص إن أبقى دما منه ينهر

(و) الرابع (ما جرى مجراه) مجرى الخطأ (كنائم انقلب على رجل فقتله) ؛ لأنه معذور كالمخطئ (وموجبه) أي موجب هذا النوع من الفعل وهو الخطأ وما جرى مجراه (الكفارة والدية على العاقلة) والإثم دون إثم القاتل إذ الكفارة تؤذن بالإثم لترك العزيمة".

(ردالمحتار، كتاب الجنايات، ج: 6 / ص: 530 ، 531 ط: سعيد)

الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ میں ہے:

"أما دية النفس فهي موروثة كسائر أموال الميت حسب الفرائض المقدرة شرعًا في تركته فيأخذ منها كل من الورثة الرجال والنساء نصيبه المقدر له باستثناء القاتل، وذلك لقوله تعالى: {ودية مسلمة إلى أهله}  ولما رواه عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده أن رسول الله قال: العقل ميراث بين ورثة القتيل على فرائضهم  وذكر ابن قدامة روايةً أخرى عن علي رضي الله عنه قال: لايرث الدية إلا عصبات المقتول الذين يعقلون عنه، وكان عمر رضي الله عنه يذهب إلى هذا ثم رجع عنه لما بلغه عن النبي صلى الله عليه وسلم توريث المرأة من دية زوجها  . فقد ورد في حديث الضحاك الكلابي قال: كتب إلي رسول الله صلى الله عليه وسلم أن أورث امرأة أشيم الضبابي من دية زوجها أشيم . وإذا لم يوجد للمقتول وارث تؤدى ديته لبيت المال لقوله صلى الله عليه وسلم: أنا وارث من لا وارث له، أعقل عنه وأرثه ".

(الموسوعة الفقهية الكويتية، ج: 21/ ص: 93 ط: دارالسلاسل ۔الکویت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308100832

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں