بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

قطروں کی بیماری والے شخص کے لیے جماعت سے نماز چھوڑنے کا حکم


سوال

 مجھے  پیشاب کے بعد قطرے بہت دیر تک آتے ہیں ۔ میں ٹشو پیپر رکھ دیتا ہوں، لیکن بعض دفعہ تین تین چار چار گھنٹے بعد بھی پیشاب یا ودی کے قطرے آتے ہیں اور ان کے آنے کا احساس بھی بہت کم ہوتا ہے ۔ جب میں نماز پڑھ کر دیکھتا ہوں توٹشوو پیپر پر قطرے جذب نظر آتے ہیں۔ ایسے میں پھر نماز کے آخری وقت کا انتظار کرتا ہوں اور آخری وقت میں نماز ادا کرتا ہوں اور میں جانتا ہوں کہ میں معذور نہیں؛ اس لیے  کہ مجھے چار رکعات فرض ادا کرنے کا وقت مل جاتا ہے،  لیکن وہ وقت کون سا ہوگا یہ مجھے نہیں پتا چلتا؛ کیوں کہ قطرے کسی بھی وقت بغیر احساس ہوئے آجاتے ہیں اور کبھی نہیں آتے، اب سوال یہ ہے کہ میں اسی قطرے آنے کی حالت میں نماز با جماعت پڑھوں اور پھر گھر آکر چیک کروں یا آخری وقت میں تسلی کرکے اکیلے میں نماز ادا کروں؛ کیوں کہ اتنا تو مجھے معلوم  ہے کہ تقاضے کے 3 سے 4 گھنٹے بعد تک تو مجھے عضومیں قطرے محسوس ہوتے ہیں اور نماز کی حرکت میں وہ اکثر نکل آتے ہیں اور پھر مجھے دہرانی پڑھتی ہے نماز گھر آ کر دوبارہ، اب ایسی حالت میں مجھے کیا پیشاب کا تقاضا روک کر نماز ادا کرنی چاہیے ؟ یا مجھے قضاءِ  حاجت کے بعد اطمینان کی حالت میں نماز پڑھنی چاہیے اور جماعت چھوڑ دینی چاہیے ؟ میں اس وجہ سے بہت پریشان ہوں ۔

جواب

بصورتِ  مسئولہ  جب آپ کو قطروں میں مقدارِ نماز کے برابر تسلسل نہیں ہے یعنی کچھ دیر تک پیشاب کے قطرے آنے کے بعد بند ہوجاتے ہیں یا درمیان میں اتنا وقفہ ہوجاتا ہے کہ جس میں فرض نماز ادا کی جاسکتی ہے  تو  آپ شرعاً معذورین میں شامل نہیں ہیں، جس کا حکم یہ ہے کہ  اِن قطروں سے وضو ٹوٹ جائے گا اور کپڑے بھی ناپاک ہوجائیں گے اور ان کا دھونا (جب کہ وہ مقدار درہم سے تجاوز کرجائیں) واجب ہوگا،  اس صورت میں  نماز سے کافی پہلے ہی پیشاب کر کے فارغ ہوجانا چاہیے اور اس کے بعد پیشاب کے قطروں کے خارج ہونے تک انتظار کریں، جب قطرے بند ہوجائیں اور  اطمینان حاصل ہوجائے پھر اس کے بعد وضو کرکے اگر جماعت کا وقت ہے تو جماعت سے نماز ادا کریں اگر نہیں ہے تو انفرادی نماز پڑھے، بہتر یہ ہوگا کہ  نماز کے وقت کے لیے الگ کپڑا رکھاجائے اور دیگر اوقات کے لیے الگ کپڑا رکھاجائے، پھر بھی اگر نماز کے وقت پہنے ہوئے کپڑوں میں قطرے نکل آئیں تو اس کو پاک کرلیاجائے۔

خلاصہ یہ ہے کہ آپ مستقل طور پر جماعت نہ چھوڑیں، بلکہ جماعت کے اوقات ملحوظ رکھتے ہوئے نماز کے اوقات سے کافی پہلے استنجا کا اہتمام کریں، اور جماعت سے ہی  نماز ادا کریں، البتہ اگر کبھی دورانِ نماز قطرے آگئے تو پاکی حاصل کرکے اس  نماز کا اعادہ کرلیجیے۔ 

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"شرط ثبوت العذر ابتداء أن يستوعب استمراره وقت الصلاة كاملا وهو الأظهر كالانقطاع لا يثبت ما لم يستوعب الوقت كله حتى لو سال دمها في بعض وقت صلاة فتوضأت وصلت ثم خرج الوقت ودخل وقت صلاة أخرى وانقطع دمها فيه أعادت تلك الصلاة لعدم الاستيعاب.

وإن لم ينقطع في وقت الصلاة الثانية حتى خرج لا تعيدها لوجود استيعاب الوقت.

وشرط بقائه أن لا يمضي عليه وقت فرض إلا والحدث الذي ابتلي به يوجد فيه هكذا في التبيين."

(کتاب الطهارۃ، ج:1، ص:40، ط:مکتبہ رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209201148

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں