بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

قتل خطا اور یتیم بچوں کی کفالت


سوال

میرے بھائی کو روڈ کراس کرتے ہوئے گاڑی نے مارا ،اور انتقال ہو گیا ،اس کا ایک بیٹا اور دو بیٹیاں ہیں ،سب نا بالغ ہیں ،اب ہم بھائی ان گاڑی والے سے دیت کا مطالبہ کر رہے ہیں ،دیت تو وہ ادا نہیں کر سکتا ہے ،جرگہ والوں نے اس کے بدلہ صلح میں 11 لاکھ روپے طے کیے ہیں ،اگر ہم اس صلح کا اقدام نہ کریں تو خطرہ ہے بچوں کو نہ دیت ملے نہ ہی صلح کے کوئی پیسے ۔سوال یہ ہے کہ :

1)ہم بھائیوں کا صلح کا فیصلہ کرنا کیسا ہے ،جبکہ معلوم نہیں کہ بالغ ہونے کے بعد بچے ان کو معاف کریں یا دیت لیں یا صلح کریں ؟

2)اس صلح کی وجہ سے بھائی کی شہادت پر کوئی اثر تو نہیں پڑے گا ،اور ہم  خود سے بچوں کو چھوڑ کر اس صلح کی وجہ سے گناہ گار تو نہیں ہوں گے ؟

3)اگر ہمارا صلح کرنا درست ہے تو یہ 11 لاکھ کیسے تقسیم ہوں گے ۔ورثاء میں ایک بیٹا ،دو بیٹیاں ،بیوہ اور والد ہیں ،اسی طرح چار بھائی اور دو بہنیں بھی زندہ ہیں ۔

4)تجہیز و تکفین کا خرچہ ،میت کو گاؤں لے جانے کا خرچہ ،اس صلح کی رقم سے منہا کر سکتے ہیں یا نہیں ؟

5)اس قتل پر دیت ہے بھی یا نہیں  ؟نیز یہ بھی بتائیں کہ اگر غلطی مرحوم بھائی کی ہو ،گاڑی چلانے والے کی نہ ہو تو کیا دیت ہو گی یا نہیں ؟

وضاحت:مرحوم کراچی میں ہی رہایش پذیر تھا ۔

جواب

1)واضح رہے کہ  یتیم بچوں کی جائیداد اور مال و متاع   کا ولی والد کا وصی  ہےیعنی وہ شخص جس کے متعلق والد نے اپنے بچوں کی کفالت کے بارے میں  وصیت کی ہو اور اگر کوئی وصی نہ ہو تو پھر یہ حق دادا  پھر اس کے وصی اور پھر قاضی(جج) کا ہے۔نیز یہ بھی واضح رہے کہ ولی کا ہر وہ اقدام جس میں یتیم بچوں کا مفاد نہ ہو تو   وہ نافذ العمل نہیں ہوتا،لہذا صورت مسئولہ میں مذکورہ یتیم بچوں کے مال و متاع کا ولی دادا ہے ،چچا وغیرہ نہیں ہیں ،اس صلح میں چونکہ یتیم بچوں کا نقصان ہے اس لیے یہ صلح کرنا دادا کے لیے جائز نہیں ہے ۔ہاں اس دیت میں بیوہ کا 12.5 فیصد  اور دادا کا  16.6 فیصد  حصہ ہے ،دادا  کو اختیار ہے کہ اپنا حصہ اور بیوہ سے اجازت لے کر اس کا حصہ بطور صلح کے جانی  (قاتل)کو معاف کر دے ،اسی طرح اس میں  کمی کا  بھی اختیار ہے،باقی اس دیت میں یتیم بچوں کا جتنا حصہ ہے ،دادا  کو اس کے معاف کرنے کا اختیار نہیں ہے۔اگر جانی اس سے انکار کرتا ہے تو دادا کو چاہیے کہ عدالت میں مقدمہ دائر کرکے   جانی سے یتیم بچوں کا حق وصول کرے ۔

2)دیت کے مطالبہ کرنے سے مرحوم بھائی کی شہادت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا ۔

3)صورت مسئولہ میں   مرحوم بھائی   کے ترکہ کی  تقسیم  کا شرعی طریقہ یہ  ہے کہ مرحوم کے  حقوق  متقدمہ     یعنی تجہیز و تکفین کا  خرچہ نکالنے کے بعد اگر مرحوم کے ذمہ  کوئی قرض ہو تو  اسے ادا کرنے کے بعد اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو باقی مال کے ایک تہائی حصہ میں اسے نافذکرنے کے بعد باقی کل ترکہ منقولہ وغیر منقولہ کو 96 حصوں میں تقسیم کر کے والد کو 16 حصے ،12 حصے بیوہ کو ،بیٹے کو 34 حصے اور ہر ایک بیٹی کو 17 حصے ملیں گے ۔نیز دیت  بھی میت کے ترکہ میں شامل ہے۔

صورت تقسیم یہ ہے :

میت 96/24

بیوہوالدبیٹابیٹیبیٹی
34 17 
1216341717

یعنی 100 فیصد میں سے بیوہ کو 12.5 فیصد ،والد کو 16.66 فیصد ،بیٹے کو 35.416 اور ہر ایک بیٹی کو 17.708 فیصد ملے گا ۔

4)تجہیز و تکفین کا خرچہ میت کے ترکہ سے منہا کیا جائے گا ،البتہ میت کو گاؤں  منتقل کرنا تو  یہ عمل شرعاً  مکروہ ہے ،اس لیے کہ اس  کا خرچہ اسی منتقل کرنے والے پر ہے ۔

5)مذکورہ قتل "قتل خطا"ہے ،اور قتل خطا میں کفارہ اور دیت دونوں چیزیں  لازم ہوتی ہیں ،پھر اگر شہادت سے قتل ثابت ہو جائے تو دیت قاتل اور  عاقلہ پر ہے،اور اگر صرف قاتل کے اقرار سے ثابت ہو جائے تو دیت قاتل کے مال میں لازم ہو گی ،جو تین سال میں ادا کی جائے گی اور دیت کی مقدار درہم کے اعتبار سے 10000 درہم ،جس کا اندازہ  موجودہ وزن کے اعتبار سے 30،618 کلو گرام چاندی  یا اس کی موجودہ قیمت ہے۔عصبہ ہر وہ جماعت ،قبیلہ  یا قوم ہے جس کے ساتھ سائل کا باہمی ربط و تعاون کا تعلق ہو ۔نیز یہ بات بھی واضح رہے کہ اگر غلطی گاڑی چلانے والی کی نہیں تھی بلکہ مرحوم بھائی ہی کی تھی تو اس صورت میں گاڑی چلانے والے پر کوئی دیت یا کفارہ لازم نہیں ہوگا اور ایسی صورت میں ڈرائیور سے کسی قسم کے مال کا مطالبہ کرنا یا لینا شرعاً جائز نہیں ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے :

"والحاصل كما في غاية البيان عن البزدوي أن الروايات اتفقت في أن الأب له استيفاء القصاص في النفس وما دونها وأن له الصلح فيهما جميعا لا العفو، وفي أن الوصي لا يملك استيفاء النفس ويملك ما دونها ويملك الصلح فيما دونها ولا يملك العفو. واختلفت الروايات في صلح الوصي في النفس على مال. ففي الجامع الصغير هنا يصح وفي كتاب الصلح لا يصح اهـ ملخصا، وذكر الرملي ترجيح الرواية الأولى (قوله استحسانا) وفي القياس لا يملكه؛ لأن المقصود متحد وهو التشفي هداية (قوله لأنه يسلك بها مسلك الأموال) ولهذا جوز أبو حنيفة القضاء بالنكول في الطرف أتقاني (قوله والصبي كالمعتوه) أي إذا قتل قريب الصبي فلأبيه ووصيه ما يكون لأبي المعتوه ووصيه فلأبيه القود والصلح لا العفو وللوصي الصلح فقط، وليس للأخ ونحوه شيء من ذلك إذ لا ولاية له عليه كما قررناه في المعتوه، وفي الهندية عن المحيط: أجمعوا على أن القصاص إذا كان كله للصغير ليس للأخ الكبير ولاية الاستيفاء، ويأتي تمامه قريبا.[تتمة] أفتى الحانوتي بصحة صلح وصي الصغير على أقل من قدر الدية إذا كان القاتل منكرا ولم يقدر الوصي على إثبات القتل قياسا على المال لما في العمادية من أن الوصي إذا صالح عن حق الميت أو عن حق الصغير على رجل، فإن كان مقرا بالمال أو عليه بينة أو قضي عليه به لا يجوز الصلح على أقل من الحق، وإن لم يكن كذلك يجوز اهـ"

(کتاب الجنایات ،ج:6،ص:539،ط:سعید)

الدر المختار میں ہے:

(وموجبه) أي موجب هذا النوع من الفعل وهو الخطأ وما جرى مجراه (الكفارة والدية على العاقلة) والإثم دون إثم القاتل إذ الكفارة تؤذن بالإثم لترك العزيمة

(کتاب الجنایات ،ج:6ص:531،ط:سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله ولا بأس بنقله قبل دفنه) قيل مطلقا، وقيل إلى ما دون مدة السفر، وقيده محمد بقدر ميل أو ميلين لأن مقابر البلد ربما بلغت هذه المسافة فيكره فيما زاد"

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وكل دية وجبت بنفس القتل في الخطأ أو شبه عمد أو عمد دخله شبهة، فهو في ثلاث سنين على من وجب عليه في كل سنة الثلث، وكذلك من أقر بقتل خطأ كانت الدية في ماله في ثلاث سنين"

(کتاب الجنایات ،ج:6،ص:87،ط:رشیدیہ)

وفیہ ایضاً:

وما وجب بالعمد الذي تمكن فيه شبهة أو بالصلح من الجناية على مال أو بالإقرار على نفسه بالقتل خطأ أو ما دون أرش الموضحة أو ما يجب بجناية العبد لا يكون على العاقلة بل يجب في مال الجاني، وفي العبد على المولى كذا في محيط السرخسي. 

(کتاب الجنایات ،ج:6،ص:87،ط:رشیدیہ)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144304100915

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں