بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قتلِ خطا میں دیت کی مقدار


سوال

کسی کا کسی کار کے ذریعے ایکسیڈنٹ ہو جاۓ، اور ایک جان چلی جائے تو اب جس کی جان گئی ہے وہ ایکسیڈنٹ کرنے والے سے کچھ رقم کا مطالبہ کرسکتا ہے یا نہیں؟ یا وہ اپنی خوشی سے کچھ دے تو کیا اس کا لینا جائز ہے؟ اسی طرح کسی کمپنی میں یا کسی کے پاس کام کرتا ہے لیکن کام کرتے وقت اس کا معاہدہ نہیں ہوا تھا کہ اگر یہ نقصان ہوا تو میں آپ کو یہ دے دوں گا، پھر بھی کسی وجہ سے اس کمپنی میں کام کرتے وقت اس کے پاس کام کرتے وقت اس کی جان چلی جاتی ہے تو کیا اس سے کچھ معاوضہ لینا درست ہے یا نہیں؟

جواب

1: اگر کسی ایکسیڈنٹ میں ڈرائیور  غلطی  سے غیر عمدی طور پر ایکسیڈنٹ کے ذریعہ اپنی سواری کے علاوہ کسی دوسرے کو قتل کردے تو یہ قتلِ خطا ہے اور  اس کی وجہ سے شریعت مطہرہ ڈرائیور پر کفارہ( یعنی مسلسل ساٹھ روزے) اور دیت( یعنی سونے یا چاندی کی شکل میں رقم جس کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے) دونوں لازم کرتی ہے،بشرط یہ کہ ایکسیڈنٹ ڈرائیور کی غلطی کی وجہ سے ہوا ہو۔

نیز دیت کی مقدار یہ ہے کہ دیت اگر  سونے کی صورت میں ادا کی جائے تو اس کی مقدار ایک ہزار (1000) دینار یعنی 375 تولہ سونا جس کا اندازا جدید پیمانے سے 4 کلو 374 گرام سونا یا اس کی قیمت بنتی ہے،  اور اگر دراہم (چاندی) کے اعتبار سے ادا کرنا ہو تو دس ہزار (10000) درہم یعنی 2625 تولہ چاندی جس کا اندازا جدید پیمانے سے 30 کلو 618 گرام چاندی یا اس کی قیمت بنتی ہے، ملحوظ رہے دیت کی ادائیگی اس ڈرائیور کی "عاقلہ" کے ذمہ ہے، اور عاقلہ سے مراد وہ جماعت، تنظیم یا کمیونٹی ہے جس کے ساتھ اس ڈرائیور کا تناصر (یعنی باہمی تعاون) کا تعلق ہو، نیز یہ دیت تین سال میں ادا کی جائے گی،  البتہ اگر ڈرائیور اور مقتول کے ورثاء آپس میں اپنے درمیان متعین کردہ رقم پر مصالحت کریں تو وہ بھی درست ہے،

2: کمپنی میں کام کرنے والا اگر ازخود انتقال کرجاتاہے تو کمپنی کے ذمہ متوفی کے خاندان والوں کو کچھ دینا لازم نہیں ہے، اور نہ ہی خاندان والے کسی حق کا مطالبہ کرسکتے ہیں البتہ اگر کمپنی کی طرف سے کوئی چیز ملتی ہے تو وہ کمپنی کی طرف سے تبرع ہوگا،  اگر وہ شخص کمپنی میں کسی وجہ سے مرجاتا ہے، تو وجہ کی وضاحت کرکے مسئلے کی نوعیت پوچھی جاسکتی ہے۔ 

فتح القدیر میں ہے:

"قال: (ومن قاد قطاراً فهو ضامن لما أوطأ) ، فإن وطئ بعير إنساناً ضمن به القائد والدية على العاقلة؛ لأن القائد عليه حفظ القطار كالسائق وقد أمكنه ذلك وقد صار متعدياً بالتقصير فيه، والتسبب بوصف التعدي سبب للضمان، إلا أن ضمان النفس على العاقلة فيه، وضمان المال في ماله (وإن كان معه سائق فالضمان عليهما)؛ لأن قائد الواحد قائد للكل، وكذا سائقه لاتصال الأزمة، وهذا إذا كان السائق في جانب من الإبل، أما إذا كان توسطها وأخذ بزمام واحد يضمن ما عطب بما هو خلفه، ويضمنان ما تلف بما بين يديه؛ لأن القائد لايقود ما خلف السائق لانفصام الزمام، والسائق يسوق ما يكون قدامه،

(فتح القدير للكمال ابن الهمام،ج:10،ص:330،ط:مکتبة رشیدیة)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144204200934

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں