بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

قتلِ خطا میں دیت کا حکم


سوال

قتل خطا میں دیت کا حکم!

جواب

قتلِ  خطا   کی  وجہ  سے کفارہ اور  دیت دونوں لازم ہوں گے ۔کفارے کے طور پر  قاتل کو مسلسل ساٹھ روزے رکھنے پڑیں گے۔البتہ دیت کی ادائیگی اس قاتل کی "عاقلہ" کے ذمہ ہے، عاقلہ سے مراد وہ جماعت، تنظیم یا کمیونٹی ہے جس کے ساتھ اس قاتل کا تناصر (یعنی باہمی تعاون) کا تعلق ہو، یہ دیت تین سال میں ادا کی جائے گی، سونے کی صورت میں اگر دیت ادا کی جائے تو دیت کی مقدار ایک ہزار دینار اور درہم  کے اعتبار سے دس ہزار (۱۰،۰۰۰ ) درھم جس کا اندازہ جدید پیمانے سے 30.618 کلوگرام چاندی یا اس کی قیمت ہے۔

فتح القدير للكمال ابن الهمام (10/ 330):

"(قال: ومن قاد قطاراً فهو ضامن لما أوطأ)، فإن وطئ بعير إنساناً ضمن به القائد والدية على العاقلة؛ لأن القائد عليه حفظ القطار كالسائق وقد أمكنه ذلك وقد صار متعدياً بالتقصير فيه، والتسبب بوصف التعدي سبب للضمان، إلا أن ضمان النفس على العاقلة فيه وضمان المال في ماله (وإن كان معه سائق فالضمان عليهما) لأن قائد الواحد قائد للكل، وكذا سائقه لاتصال الأزمة، وهذا إذا كان السائق في جانب من الإبل، أما إذا كان توسطها وأخذ بزمام واحد يضمن ما عطب بما هو خلفه، ويضمنان ما تلف بما بين يديه لأن القائد لا يقود ما خلف السائق لانفصام الزمام، والسائق يسوق ما يكون قدامه".

تکملة فتح الملهم (۲ ؍ ۵۲۳ ):

"ثم لم یذکر الفقهاء حکم السیارة لعدم وجودها في عصرهم. والظاهر أن سائق السیارة ضامن لما أتلفته في الطریق ، سواء أتلفته من القدام أو من الخلف. و وجه الفرق بینها و بین الدابة علی قول الحنفیة أن الدابة متحرکة بإرادتها، فلاتنسب نفحتها إلی راکبها، بخلاف السیارة، فإنها لاتتحرک بإرادتها ، فتنسب جمیع حرکاتها إلی سائقها، فیضمن جمیع ذلک، والله سبحانه و تعالیٰ أعلم".

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144205201082

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں