بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زہر دے کر قتل کرنے کا حکم


سوال

الف نے مارنے کی نیت سے اپنے دشمن ب کے کھانے میں زہر ملا دیا جو غلطی سے کسی اور شخص (ج) نے کھا لیا اور وہ مر گیا، تو اس صورت میں الف کی شرعاً کیا سزا ہوگی، برائے مہربانی وضاحت فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ شریعت مطہرہ میں کسی بھی انسان کا قتل کرنا سوائے تین مقامات کے جائز نہیں ہے:

1- زانی محصن کو رجم کرنا۔

2- مرتد کو قتل کرنا۔

3- کسی کو قصاصاً قتل کرنا۔

اور یہ بھی اس صورت میں کہ جب عدالت میں جرم ثابت ہوجانے پر قصاص لینے کاحکم ہوگا،ان تین مقامات کے علاوہ کسی بھی انسان کو قتل کرنا ناجائز اور حرام ہے، اور قرآن و حدیث میں اس پر سخت وعیدیں اور سزائیں وارد ہوئی ہیں، اور نہ ہی اپنے کسی دشمن کو  محض دشمنی کی وجہ سے قتل کرنا جائز ہے۔

البتہ اگر کسی شخص نے کسی دوسرے کو دھوکہ سے  زہر پلایا اور اس کو زہر کے پینے  پر مجبور بھی نہیں کیا تو اس صورت میں وہ شخص سخت گناہ گار اور حرام فعل کا مرتکب ہوگااور یہ قابل تعزیر جرم ہے، لیکن اس پر قصاص یا دیت لازم  نہیں ہوگی اور اگر اس کو زبردستی زہر پلادیا تو اس صورت میں اس پر اور اس کے عاقلہ (خاندان) پر دیت لازم ہوگی۔

صورت مسئولہ میں جب الف نے ب کو مارنے کی نیت سے اس کے کھانے میں زہر ملایا اور غلطی سے وہ کھانا ج نے کھالیا تو اس صورت میں الف سخت گناہ گار ہوا، لیکن اس پر اور اس کے عاقلہ پر دیت لازم نہیں ہوگی، البتہ تعزیری سزا کا مستحق ہوگا، حاکم وقت  (قاضی) اُس پر تعزیراً سزا جاری کریں گے اور الف پر لازم ہوگا کہ صدق دل سے توبہ اور استغفار کرے اورآئندہ کےلیے اس طرح کے فعل سے اجتناب کرے۔

قرآن کریم میں ہے:

وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا [النساء: 93] 

السنن الکبری للبیہقی میں ہے:

"أخبرنا أبو الحسين محمد بن الحسين بن الفضل القطان ببغداد ، ثنا محمد بن عبد الله بن عمرويه الصفار، ثنا محمد بن إسحاق الصغاني، ثنا محمد بن سابق، ثنا إبراهيم بن طهمان، عن عبد العزيز بن رفيع، عن عبيد بن عمير، عن عائشة، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ‌لا ‌يحل ‌قتل ‌امرئ ‌مسلم يشهد أن لا إله إلا الله وأني رسول الله إلا في إحدى ثلاث: زان بعد إحصان ، ورجل قتل يقتل به ، ورجل خرج محاربا لله ورسوله فيقتل أو يصلب أو ينفى من الأرض."

(كتاب السرقة، ج:8، ص:491، حديث: 17312، ط:دار الكتب العلمية)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"وإذا سقى رجلا ‌سما فمات من ذلك، فإن أوجره إيجارا على كره منه، أو ناوله ثم أكرهه على شربه حتى شرب، أو ناوله من غير إكراه عليه، فإن أوجره، أو ناوله وأكرهه على شربه فلا قصاص عليه، وعلى عاقلته الدية، وإذا ناوله فشرب من غير أن أكرهه عليه لم يكن عليه قصاص، ولا دية سواء علم الشارب بكونه ‌سما، أو لم يعلم هكذا في الذخيرة ويرث منه وكذا لو قال لآخر: كل هذا الطعام فإنه طيب فأكله، فإذا هو مسموم فمات لم يضمن كذا في الخلاصة."

(کتاب الجنایات، الباب الثانی، ج:6، ص:6، ط:دار الفکر)

الدر المختار میں ہے:

"(سقاه ‌سما حتى مات، إن دفعه إليه حتى أكله ولم يعلم به فمات لا قصاص ولا دية لكنه يحبس ويعزر، ولو أوجره) السم (إيجارا تجب الدية) على عاقلته (وإن دفعه له في شربة فشربه ومات) منه (فكالأول) ؛ لأنه شرب منه باختياره إلا أن الدفع خدعة فلا يلزم إلا التعزير والاستغفار، خانية."

(كتاب الجنايات، فصل فيما يوجب القود وما لايوجبه، ج:6، ص:542، ط:سعيد)

"الفقہ الاسلامی وادلتہ" میں ہے:

"ويتحمل القاتل جزءاً من الدية مع العاقلة؛ لأنه هو المطالب أصالة بتحمل جريرة فعله، ودور العاقلة تابع، فهو مطالب بحفظ نفسه من ارتكاب الجرائم، وعاقلته مطالبة أيضاً بحفظه من الجريمة، فإذا لم يحفظوا فرَّطوا، والتفريط منهم ذنب. والقاتل يعتمد على مناصرة عاقلته وحمايتها له، فتشاركه في تحمل تبعة المسؤولية، لا أنها تستقل بتحملها عنه.وبناء على هذا الرأي: إذا لم يكن للجاني عاقلة يرجع بالدية كلها عليه."

(الباب الثالث، الفصل الاول، المبحث الثالث، ج:7، ص:5723، ط:دارالفكر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144308101414

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں