بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

قتلِ عمد میں دیت کی مقدار


سوال

قتلِ عمد کی دیت کتنی ہوتی ہے؟

جواب

قتلِ عمد میں قاتل پر دیت واجب نہیں ہوتی، بلکہ قتلِ عمد میں قاتل کی شرعی سزا قصاص ہے ، اور قصاص صرف حکومت جاری کرسکتی ہے، البتہ اگرمقتول   کے ورثاء قصاص معاف کرکے قاتل سے صلح کرنا چاہیں  تو اُن کو   اس کا اختیار  حاصل ہوتا ہے، تاہم قتلِ عمد میں صلح کی صورت میں دیت کی مقدار پر صلح کرنا ضروری نہیں ہے، بلکہ جس مقدار پر بھی فریقین صلح کے لیے آمدہ ہوجائیں صلح ہوجائے گی،  چاہے وہ مقدار  دیت سے کم ہو یا زیادہ۔

نیز دیت کی مقدار یہ ہے کہ دیت اگر  سونے کی صورت میں ادا کی جائے تو اس کی مقدار ایک ہزار (1000) دینار یعنی 375 تولہ سونا جس کا اندازہ جدید پیمانے سے 4 کلو 374 گرام سونا یا اس کی قیمت بنتی ہے،  اور اگر چاندی کے اعتبار سے ادا کرنا ہو تو دس ہزار (10000) درہم یعنی 2625 تولہ چاندی جس کا اندازہ جدید پیمانے سے 30 کلو 618 گرام چاندی یا اس کی قیمت بنتی ہے۔

فتح القدیر میں ہے:

"قال (وموجب ذلك المأثم) لقوله تعالى {ومن يقتل مؤمنا متعمدا فجزاؤه جهنم} الآية، وقد نطق به غير واحد من السنة، وعليه انعقد إجماع الأمة.

قال (والقود) لقوله تعالى {كتب عليكم القصاص في القتلى} إلا أنه تقيد بوصف العمدية لقوله - عليه الصلاة والسلام - "العمد قود" أي موجبه، ولأن الجناية بها تتكامل وحكمة الزجر عليها تتوفر، والعقوبة المتناهية لا شرع لها دون ذلك.

قال (إلا أن يعفو الأولياء أو يصالحوا) ؛ لأن الحق لهم."

(کتاب الجنایات ١٠/ ٢٠٥-٢٠٧، ط: دارالفکر)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(القتل) الذي يتعلق به الأحكام الآتية ... (خمسة) ... الأول (عمد، وهو أن يتعمد ضربه) ... (و) موجبه (القود عينا) فلا يصير مالاً إلا بالتراضي فيصح صلحاً ولو بمثل الدية أو أكثر، ابن كمال عن الحقائق.

قال عليه في الرد: (قوله وموجبه القود) بفتح الواو أي القصاص، وسمي قودا؛ لأنهم يقودون الجاني بحبل وغيره قاله الأزهري اهـ سعدي. ثم إنما يجب القود بشرط في القاتل والمقتول يذكر في الفصل الآتي. (قوله فلا يصير مالا إلخ) تفريع على قوله عينا: أي ليس لولي الجناية العدول إلى أخذ الدية إلا برضا القاتل، وهو أحد قولي الشافعي، وفي قوله الآخر الواجب أحدهما لا بعينه ويتعين باختياره والأدلة في المطولات. (قوله فيصح صلحا) أي إذا كان القود عندنا هو الواجب في العمد فلا ينقلب مالا إلا من جهة الصلح (قوله ولو بمثل الدية أو أكثر) أطلقه فشمل ما لو كان من جنسها أو من غيره حالا أو مؤجلا كما في الجوهرة."

(کتاب الجنایات، ٦/ ٥٢٧ - ٥٢٩، ط:سعید)

وفيه أيضاً: 

"(‌و) ‌صح (‌في) ‌الجناية (‌العمد) ‌مطلقا ‌ولو ‌في ‌نفس ‌مع ‌إقرار (بأكثر من الدية والأرش) أو بأقل لعدم الربا، وفي الخطأ كذلك لا تصح الزيادة لأن الدية في الخطأ مقدرة حتى لو صالح بغير مقاديرها صح.

قال عليه في الرد: قوله (وصح في الجناية العمد) شمل ما إذا تعدد القاتل أو انفرد حتى لو كانوا جماعة فصالح أحدهم على أكثر من قدر الدية جاز وله قتل البقية والصلح معهم لأن حق القصاص ثابت على كل واحد منهم على سبيل الانفراد ، تأمل ، رملي. قوله (لعدم الربا) لأن الواجب فيه القصاص وهو ليس بمال، قوله ( كذلك) أي ولو في نفس مع إقرار، ح. قوله (الزيادة) أفاد صحة النقص."

(کتاب الصلح، ٥/ ٦٣٤، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144508102507

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں