بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قاتلینِ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے شامل نہیں تھے


سوال

میں نے کہیں پڑھا ہے کہ قاتلین عثمان غنی رضی اللّٰہ تعالی  عنہ میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ تعالی  عنہ کا بیٹا محمد بن ابوبکر بھی شامل تھا ؛  چوں کہ میرا تعلق ایک دیوبندی گھرانے سے ہے تو میرے لیے یہ بات تھوڑی پریشان کن ہے !

جواب

واضح رہے کہ تاریخ کی متعدد کتابوں سے صحیح اور راجح قول یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت محمد ابن ابو بکر رضی اللہ عنہ ، حضرت عثمان غنی رضی اللہ کے قتل میں شامل نہیں تھے ۔ 

"و قال ابن تيمية: فإن جماهير المسلمين لم يأمروا بقتله، و لا شاركوا في قتله، و لا رضوا بقتله."

( منهاج السنة: (3/322) ط: جامعة الإمام محمد بن سعود الإسلامية)

"وَ رَوى أَسَدُ بْنُ مُوسى، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ طَلْحَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا كنَانَةُ مَوْلى صَفِيَّةَ بِنْتِ حُيَي، إِنَّهُ لَمْ يَنَلْ مُحَمَّدَ بْنَ أَبِي بَكْرٍ مِنْ دَمِ عُثْمَانَ بِشَيْءٍ. قال مُحَمَّد بْن طَلْحَة: فقلت لكنانة: فلم قيل إنه قتله؟ قَالَ:معَاذ الله أن يكون قتله، إنما دخل عَلَيْهِ، فَقالَ لَهُ عُثْمَان: يَا بن أخي، لست بصاحبي، وكلمه بكلام، فخرج ولم ينل من دمه بشيء. فقلت لكنانة: فمن قتله، قَالَ: رجل من أهل مصر يقال لَهُ جبلة بْن الأيهم.

و قيل: إنه شارك في دمه، و قد نفى جماعة من أهل العلم و الخبر أنه شارك في دمه، و أنه لما قال عثمان: (لو رآك أبوك لم يرض هذا المقام منك) فخرج عنه و تركه، ثم دخل عليه من قتله."

(الإستيعاب في معرفة الأصحاب: (3/367) ط: دار الجيل بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212202051

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں