میں نے کہیں پڑھا ہے کہ قاتلین عثمان غنی رضی اللّٰہ تعالی عنہ میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ تعالی عنہ کا بیٹا محمد بن ابوبکر بھی شامل تھا ؛ چوں کہ میرا تعلق ایک دیوبندی گھرانے سے ہے تو میرے لیے یہ بات تھوڑی پریشان کن ہے !
واضح رہے کہ تاریخ کی متعدد کتابوں سے صحیح اور راجح قول یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت محمد ابن ابو بکر رضی اللہ عنہ ، حضرت عثمان غنی رضی اللہ کے قتل میں شامل نہیں تھے ۔
"و قال ابن تيمية: فإن جماهير المسلمين لم يأمروا بقتله، و لا شاركوا في قتله، و لا رضوا بقتله."
( منهاج السنة: (3/322) ط: جامعة الإمام محمد بن سعود الإسلامية)
"وَ رَوى أَسَدُ بْنُ مُوسى، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ طَلْحَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا كنَانَةُ مَوْلى صَفِيَّةَ بِنْتِ حُيَي، إِنَّهُ لَمْ يَنَلْ مُحَمَّدَ بْنَ أَبِي بَكْرٍ مِنْ دَمِ عُثْمَانَ بِشَيْءٍ. قال مُحَمَّد بْن طَلْحَة: فقلت لكنانة: فلم قيل إنه قتله؟ قَالَ:معَاذ الله أن يكون قتله، إنما دخل عَلَيْهِ، فَقالَ لَهُ عُثْمَان: يَا بن أخي، لست بصاحبي، وكلمه بكلام، فخرج ولم ينل من دمه بشيء. فقلت لكنانة: فمن قتله، قَالَ: رجل من أهل مصر يقال لَهُ جبلة بْن الأيهم.
و قيل: إنه شارك في دمه، و قد نفى جماعة من أهل العلم و الخبر أنه شارك في دمه، و أنه لما قال عثمان: (لو رآك أبوك لم يرض هذا المقام منك) فخرج عنه و تركه، ثم دخل عليه من قتله."
(الإستيعاب في معرفة الأصحاب: (3/367) ط: دار الجيل بيروت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144212202051
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن