بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 ذو القعدة 1446ھ 09 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

قاتل مر جائے تو قصاص کا حکم


سوال

قتل عمد کی صورت میں فوت شدہ قاتل سے قصاص لینے یا صلح کی صورت کیا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ قتل عمد کی اصل سزا قصاص ہے،اور دیت یا صلح وغیرہ اس کے قائم مقام ہیں ، لہٰذاجب قاتل مر جائے تو اس سے قصاص ساقط ہوجاتا ہے، اور یوں مقتول کے ولی کا حق بالکل ہی ختم ہوجاتا ہے،اب  نہ وہ قاتل کی عاقلہ سےدیت لے سکتا ہے اور نہ اس کے اولیاء سےصلح کرسکتا ہے۔اس لیے کہ یہ چیزیں قصاص کی نیابت میں ثابت ہوتی ہیں، اور جب قاتل کی موت کی وجہ سے اس سے قصاص ہی ساقط ہوگیا، تو باقی امور بھی تبعاًساقط ہوگئے۔

بدائع میں ہے:

"وأما كيفية وجوب القصاص فهو أنه واجب عينا حتى لا يملك الولي أن يأخذ الدية من القاتل من غير رضاه، ولو مات القاتل أو عفا الولي سقط الموجب أصلا."

(بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع،كتاب الجنايات،  فصل في كيفية وجوب القصاص،7/ 241، ط:دار الكتب العلمية)

الاختیار میں ہے:

"إذا ‌مات ‌القاتل فإنه يسقط القصاص لفوات محله."

(الاختيار لتعليل المختار،كتاب الجنايات، فصل يقتل الحر بالحر وبالعبد، 5/ 29، الناشر: مطبعة الحلبي - القاهرة)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وظاهره أن حق الولي يسقط رأسا كما لو ‌مات ‌القاتل حتف أنفه.

(قوله وظاهره إلخ) أي ظاهر قول المتن ولو قتل القاتل أجنبي وجب القصاص إلخ أن ولي المقتول الأول يسقط حقه رأسا أي يسقط من الدية كما سقط من القصاص، مثل لو ‌مات ‌القاتل بلا قتل أحد.

ووجه الظهور أن المصنف لم يتعرض لشيء من ذلك وهو ظاهر، لما تقدم من أن موجب العمد القود عينا فلا يصير مالا إلا بالتراضي ولم يوجد هنا ثم رأيته في التتارخانية حيث قال في هذه المسألة وإذا قتل القاتل بحق أو بغير حق سقط عنه القصاص بغير مال، وكذا إذا مات."

(رد المحتار، على الدر المختار،‌‌كتاب الجنايات، ‌‌فصل فيما يوجب القود وما لا يوجبه، 6/ 540، ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144511101390

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں