بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 ذو القعدة 1446ھ 09 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

قصاص قاتل سے لیاجائے گا قتل کروا نے والے سے نہیں


سوال

میرے والد صاحب کو کسی نے اجرتی قاتلوں سے قتل کروادیا ہے، ہمارا قصاص کس سے بنتا ہے ؟قاتلوں پر یا قتل کروانے والوں پر یا دونوں پر؟ اب اگر ہمیں حکومتِ وقت سے انصاف نہیں ملتا اور ہم خود بدلہ لیتے ہیں تو اس صورت میں ہم حق پر ہوں گے یا گناہ گار؟

جواب

واضح رہے کہ  عمدًا کسی انسان  کو ناحق قتل  کرنا اسلام میں   گناہ کبیرہ هے  اور  اس  کی سزا دائمی جہنم ہے ،خدانخواستہ اگر کسی شخص نے کسی کا  قتل کردیا تو ایسی صورت میں مقتول کے اولیا ءعدالت سے رجوع کرکے قاتل سے قصاص لیں گے نہ کہ قتل پر ابھارنے اور تیار کرنے  والےسے،البتہ قتل پر ابھارنے والابھی ان کے ساتھ اخروی مواخذہ کا شکار ہو گا ۔ اور عدالت میں اس کا یہ جرم ثابت ہونے پر عدالت اسے تعزیری سزا دے سکتی ہے۔

باقی  مقتول کے ورثاء  از خود انتقام كے طور پر  قاتل کو ہرگز قتل نہیں کرسکتے ؛ کیوں کہ انہیں حدود اور قصاص کے نفاذ کا حق نہیں ہے،  بلکہ یہ کام حکومتِ وقت کی ذمے داری ہے کہ وہ حق دارکو اس کا حق پہنچاۓ، مقتول کے ورثاء  کا از خود قاتل کےقتل پراقدام کرنا  قتلِ ناحق شمار ہوگا۔

حکومت اگر اپنے فرائض کی انجام دہی میں کوتاہی کرے تو اس سے عوام کے لیے ناجائز اقدامات کا جواز  ہرگز پیدا نہیں ہوتا، پس ہر مسلمان کو یہ عقیدہ رکھنا چاہیے کہ اگر آج اس دنیا میں خدانخواستہ اس کو انصاف نہیں ملا تو کل بروزِقیامت احکم الحاکمین کی عدالت میں ضرور اس کے ساتھ مکمل عدل وانصاف کا معاملہ کیا جائے اور جو لوگ دنیا اس انصاف کی راہ میں حائل بنے ان سے بھی سخت باز پرس ہوگی ۔

البحرالرائق میں ہے:

"قال - رحمه الله - (وعلى قتل غيره بقتل لا يرخص) يعني لو ‌أكره ‌على ‌قتل غيره بالقتل لا يرخص له القتل لإحياء نفسه؛ لأن دليل الرخصة خوف التلف والمكره والمكره عليه سواء في ذلك فسقط المكره؛ ولأن قتل المسلم بغير حق مما لا يستباح لضرورة ما فكذا بالإكراه، وهذا لا نزاع فيه وأطلق في قوله غيره فشمل الحر والعبد وعبده وعبد غيره وفي المحيط لو أكره بقتله أن يقتل عبده أو يقطع يده لم يسعه ذلك فإن قتل يأثم ويقتل المكره في القتل ويضمن نصف قيمته؛ لأن دمه حرام بأصل الفطرة، ولو أكره بقتل على أن يقتل أباه أو ابنه فقتله لم يحرمه عن الميراث، ولو كان المكره أبا المقتول أو ابنه يحرم عن الميراث؛ لأن المباشر للقتل هو المكره."

(كتاب الإكراه،‌‌ أكل لحم خنزير وميتة ودم وشرب خمر بحبس أو ضرب أو قيد مكرها، 84/8، ط:سعید)

بدائع الصنائع میں ہے :

"وأما شرائط جواز إقامتها: فمنها ما يعم الحدود كلها، ومنها ما يخص البعض دون البعض، أما الذي يعم الحدود كلها فهو الإمامة: وهو أن يكون المقيم للحد هو الإمام أو من ولاه الإمام، وهذا عندنا."

( كتاب الحدود، فصل في شرائط جواز إقامة الحدود، 57/7، ط:دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144410101638

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں