بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

قاتل کے خود بخود مرجانے کے بعد قصاص کا حکم


سوال

 بندہ کے چچا رسول خان کو آلہ جارحہ (بندوق) سے ظلما قتل کیا، پھر ہم قاتل سے انتقام کے درپے ہوگئے، لیکن خدا کاکرنا ایساہوا کہ قاتل آفت سماوی سے لقمہ اجل بن کر فوت ہوگئے، لیکن مقتول کے ورثاء اور دیگر لوگ موجود ہے ۔

اب پوچھنا یہ ہے کہ کیا قاتل کے فوتگی کے بعد مقتول کے ورثاء قصاص یا دیت کا حق رکھتے ہیں یا نہیں؟ دلائل کے ساتھ جواب مطلوب ہے۔

جواب

کسی انسان کا قتل ناحق اسلام میں ایسا سخت ترین گناہ کبیرہ جس کی سزا دائمی جہنم ہے خدانخواستہ اگر کسی شخص نے قتل کردیا تو ایسی صورت میں مقتول کے اولیا عدالت سے رجوع کرکے انصاف حاصل کریں گے اور قانون کے مطابق قاتل کو سزا دلوائی جائے گی مقتول کے ورثا از خود انتقاما قاتل کو ہرگز قتل نہیں کرسکتے کیونکہ انہیں حدود اور قصاص کے نفاذ کا حق نہیں ان کا اقدام خود قتل ناحق شمار ہوگا۔ حکومت اگر اپنے فرائض میں کوتاہ رہے تو اس سے عوام کے لیے ناجائز اقدامات کا جواز پیدا نہیں ہوتا ؛ لہذا صورتِ مسئولہ میں سائل کے چچا کے قاتل کو بطورِ قصاص قتل کرنے کا اختیار مقتول کے ورثاء کو شرعاً حاصل ہی نہیں تھا، تاہم مقتول کے ورثاء قصاص لینا چاہتے تھے، اور قاتل خود ہی مرچکا ہے، تو اس صورت میں مقتول کے ورثاء(سائل اور دیگر رشتہ داروں) کو قاتل کے ورثاء سے کچھ بھی لینے کا شرعاً حق باقی نہیں رہا، مقتول کے ورثاء جس کا قتل چاہتے تھے، وہ خود نہیں رہا، تو محل فوت ہوچکا ہے، اب اس کے بدلے قاتل کے ورثاء سے دیت کا مطالبہ کرنا شرعاً جائز نہیں ہے۔

الدر المختار میں ہے: 

"وظاهره أن حق الولي يسقط رأسا كما لو ‌مات ‌القاتل حتف أنفه.

وفي الرد: مثل لو ‌مات ‌القاتل بلا قتل أحد.

ووجه الظهور أن المصنف لم يتعرض لشيء من ذلك وهو ظاهر، لما تقدم من أن موجب العمد القود عينا فلا يصير مالا إلا بالتراضي ولم يوجد هنا ثم رأيته في التتارخانية حيث قال في هذه المسألة وإذا قتل القاتل بحق أو بغير حق سقط عنه القصاص بغير مال، وكذا إذا مات."

(کتاب الجنایات، فصل فيما يوجب القود وما لا يوجبه، ج: 6، ص: 540، ط: سعید)

التجرید للقدوری میں ہے:

"حكم ما إذا ‌مات ‌القاتل بعد وجوب القصاص عليه.

قال أصحابنا رحمهم الله: إذا وجب القصاص فمات القاتل؛ سقط القصاص بغير عوض."

(کتاب الجنایات، ‌‌مسألة:  1315، ج: 11، ص: 5584، ط: دار السلام)

الموسوعة الفقھیة الکویتیة  میں ہے:

"ذهب الحنفية والمالكية والشافعية وهو المذهب عند الحنابلة إلى أنه إذا ‌مات ‌القاتل قبل أن يقتص منه سقط القصاص لفوات محله؛ لأن القتل لا يرد على ميت، وسواء في ذلك أن يكون الموت قد حصل حتف أنفه، أو بقتل آخر له بحق كالقصاص والحد، وتجب الدية في تركته عند الشافعية وهو المذهب عند الحنابلة."

(قصاص،ما يسقط به القصاص في النفس، فوات محل القصاص، ج: 33، ص: 275، ط: دارالسلاسل)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144405100643

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں