بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قاتل کا اپنے مورث سے حاصل شدہ مکان فروخت کرنا


سوال

میں نے ایک مکان کی خریداری کا معاہدہ کیا، جس کے مالک دو بھائی ہیں اور جنہوں نے یہ مکان اپنے مرحوم والد کی وراثت میں پایا ہے میں نے مکان کی آدھی رقم دونوں بھائیوں کو معاہدے کے مطابق نصف نصف ادا کر دی، مکان کی بقایا رقم کاغذات کی منتقلی کے بعد ادا کرنا تھی، کاغذات کی منتقلی سے قبل ہی میرے علم میں یہ بات آئی کہ ان بھائیوں میں سے ایک بھائی پر اپنے والد والدہ اور دو سگی بہنوں کے قتل کا الزام تھا اس کیس سے متعلق تفصیلات میں نے انٹرنیٹ پر موجود مواد سے حاصل کیں، اس شخص نے پولیس کے سامنے اپنے جرم کا اقرار کیا اور جیل چلا گیا، بعد ازاں وہ ڈیڑھ دو سال بعد جیل سے رہا ہو گیا، رہائی کے متعلق کچھ افراد نے بتایا کہ مقتولین کے ورثاء یعنی اس کے چھوٹے بھائی اور چچاؤں نے اسے مقتولین کا خون معاف کر کے عدالت سے معافی دلوائی، اس کی رہائی کی اصل صورت کیا تھا میں اس بات سے نا واقف ہوں، مگر مجھے بعض اہل علم نے یہ بتایا ہے کہ رہائی کی مندرجہ بالا صورت میں یہ شخص اپنے والد یا والدہ کی وراثت کا قطعی حق دار نہیں ہے، کیوں کہ کوئی قاتل  خواہ اس کے  یعنی مقتولین کے بھائی اور اولاد اسے معاف ہی کیوں نہ کر دیں، وہ مقتولین کی جائیداد کا وارث نہیں ہو سکتا۔

میرا سوال یہ ہے کہ اس ساری صورتِ حال میں شریعت کیا حکم دیتی ہے؟ کیا میں اس معاملہ کے کرنے سے کسی گناہ  کا مرتکب تو نہیں ہو رہا؟

جواب

واضح رہے کہ جو شخص اپنے والد کا قاتل ہو وہ اپنے والد  کی وراثت  سے محروم ہو جاتا ہے اور  اس کا اپنے والد کی جائیداد میں کوئی حصہ نہیں ہوتا،لہذا صورتِ مسئولہ میں  سائل نے جن دو بھائیوں سے مکان خریدا ہے اُن دو بھائیوں میں سے ایک بھائی چونکہ اپنے والد کا قاتل ہے اس لیے  وہ اپنے والد کے ترکہ کے   مکان میں   حصہ دار نہیں ہے، لہذا  اس کا وراثت میں حاصل شدہ  مکان بیچنا بھی درست نہیں ہے، اب سائل نے مکان کا جتنا حصہ (یعنی مکان کا نصف حصہ)  مذکورہ شخص سے خریدا ہے اس حصے میں معاملہ درست نہیں ہوا، بلکہ یہ بیع دیگر شرعی ورثاء کی رضامندی پر موقوف ہو گی، اگر وہ اجازت دے دیں تو نافذ ہو گی اور اس کی رقم بھی قاتل کے علاوہ دیگرورثاء کو ہی دی جائے گی،  اگر  وہ راضی نہ ہوں تو  مذکورہ حصے میں بیع  قابلِ فسخ ہو گی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وموانعه) على ما هنا أربعة (الرق) ..... (والقتل)  الموجب للقود أو الكفارة ....

(قوله الموجب للقود أو الكفارة) الأول هو العمد وهو أن يقصد ضربه بمحدد أو ما يجري مجراه في تفريق الأجزاء، والثاني ثلاثة أقسام شبه عمد، وهو أن يتعمد قتله بما لا يقتل غالبا كالسوط وخطأ كأن رمى صيدا فأصاب إنسانا وما جرى مجراه كانقلاب نائم على شخص أو سقوطه عليه من سطح، فخرج القتل بسبب فإنه لا يوجبهما كما لو أخرج روشنا أو حفر بئرا أو وضع حجرا في الطريق، فقتل مورثه أو أقاد دابة أو ساقها فوطئته الخ

(کتاب الفرائض، 6/767/ سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"‌‌فصل في الفضولي مناسبته ظاهرة، وذكره في الكنز بعد الاستحقاق؛ لأنه من صوره. (هو) من يشتغل بما لا يعنيه فالقائل لمن يأمر بالمعروف: أنت فضولي يخشى عليه الكفر فتح. واصطلاحا (من يتصرف في حق غيره) بمنزلة الجنس (بغير إذن شرعي) فصل خرج به نحو وكيل ووصي (كل تصرف صدر منه) تمليكا كان كبيع وتزويج، وإسقاطا كطلاق وإعتاق (وله مجيز) أي لهذا التصرف من يقدر على إجازته(حال وقوعه انعقد موقوفا) وما لا يجيز له حالة العقد لا ينعقد أصلا."

(کتاب البیوع، باب البیع الفاسد، فصل فی الفضولی، 5/106/ سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100090

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں