بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قاتل کے ساتھ اجتماعی قربانی کرنا


سوال

قاتل کے ساتھ اجتماعی قربانی کرنا کیسا ہے؟

جواب

اجتماعی قربانی میں اس بات کا لحاظ رکھنا ضروری ہے کہ حصہ داروں میں سے کوئی شریک حرام آمدنی والا نہ ہو، اگر شرکاء میں سے کسی شریک کی کل آمدنی یا اکثر آمدنی حرام ہو تو ایسے شخص کی شرکت کے ساتھ قربانی درست نہ ہو گی،  البتہ شرکاء میں سے اگر کوئی شریک فاسق ہو تو ایسے شخص کی شرکت کی وجہ سے قربانی خراب نہ ہو گی، قربانی درست ہو جائے گی، لہٰذا اگر قربانی کے بڑے جانور کے شرکاء میں سے کوئی قاتل ہو تو اس کی شرکت کی وجہ سے باقی حصہ داروں کی قربانی خراب نہیں ہوگی، البتہ قربانی کرنے والے کو چاہیے کہ نیک صالح شرکاء کے ساتھ قربانی کرے۔ 

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"وإن كان كل واحد منهم صبياً أو كان شريك السبع من يريد اللحم أو كان نصرانياً ونحو ذلك لايجوز للآخرين أيضاً، كذا في السراجية. ولو كان أحد الشركاء ذمياً كتابياً أو غير كتابي وهو يريد اللحم أو يريد القربة في دينه لم يجزئهم عندنا؛ لأن الكافر لايتحقق منه القربة، فكانت نيته ملحقةً بالعدم، فكأنه يريد اللحم، والمسلم لو أراد اللحم لايجوز عندنا". (۵ / ۳۰۴، رشیدیہ)

شامی میں ہے :

"قال في المنح هناك: وعن عبد الله بن محمد بن أسلم السمرقندي وكان من كبار علماء سمرقند أنه لايحل له أن ينتفع بشيء منه بوجه من الوجوه وإن أذن له الراهن؛ لأنه أذن له في الربا؛ لأنه يستوفي دينه كاملاً فتبقى له المنفعة فضلاً؛ فتكون رباً، وهذا أمر عظيم، قلت: وهذا مخالف لعامة المعتبرات من أنه يحل بالإذن إلا أن يحمل على الديانة، وما في المعتبرات على الحكم ، ثم رأيت في جواهر الفتاوى: إذا كان مشروطاً صار قرضاً فيه منفعة وهو رباً، وإلا فلا بأس به ا هـ ما في المنح ملخصاً، وتعقبه الحموي بأن ما كان رباً لايظهر فيه فرق بين الديانة والقضاء على أنه لا حاجة إلى التوفيق بعد أن الفتوى على ما تقدم أي من أنه يباح ، قلت: وما في الجواهر يفيد توفيقاً آخر يحمل ما في المعتبرات على غير المشروط وما مر على المشروط، وهو أولى من إبقاء التنافي ويؤيده ما ذكروه فيما لو أهدى المستقرض للمقرض إن كانت بشرط كره وإلا فلا، وأفتى في الخيرية فيمن رهن شجر الزيتون على أن يأكل المرتهن ثمرته نظير صبره بالدين بأنه يضمن". (۵ / ۱۶۶، سعید)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144112200210

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں