بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 رجب 1446ھ 20 جنوری 2025 ء

دارالافتاء

 

قاتل عمد کی مغفرت


سوال

سورہ نساء کی آیت 93 میں لکھاہے کہ جو کوئی کسی مؤمن کو جان بوجھ کے قتل کرے گا تو وہ ہمیشہ جہنم میں جائے گا، لیکن یہ کسی کو حلال سمجھ کر قتل کرے گا تو ہمیشہ جہنم میں جائے گا، تو پوچھنا چاہتا ہوں کہاگر یہ شخص توبہ کرلے  تو کیا اس کی توبہ قبول ہوگی، کیوں کہ میں نے ایک تفسیر میں پڑھا تھا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ایسے شخص کی کوئی توبہ نہیں ہے اور بعض سلف بھی یہی کہتے ہیں اور ایک حدیث میں بھی نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ قاتل کی کوئی بھی توبہ قبول کرنے سے اللہ تعالی انکار کرتے ہیں، یہ مسئلہ بتا دیں۔

جواب

جمہور علمائے امت کایہ مسلک ہے کہ اگر کسی کو جان بوجھ کر قتل کرنے والا شخص سچے دل سے توبہ کرے  تو اللہ رب العزت اسے معاف کردیتے ہیں، قرآن کریم کی درج ذیل آیات اس سلسلے میں مؤید ہیں:

1۔ وَالَّذِينَ لا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ [وَلا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلا بِالْحَقِّ وَلا يَزْنُونَ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ يَلْقَ أَثَامًا * يُضَاعَفْ لَهُ الْعَذَابُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَيَخْلُدْ فِيهِ مُهَانًا إِلا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلا صَالِحًا فَأُولَئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا [الفرقان: 68، 69]

ترجمہ: اور جو کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور معبود کی پرستش نہیں کرتے اور جس شخص (کے قتل کرنے) کو اللہ تعالیٰ نے حرام فرمایا ہے اس کو قتل نہیں کرتے ہاں مگر حق پر اور وہ زنا نہیں کرتے اور جو شخص ایسے کام کرےگا تو سزا سے اس کو سابقہ پڑے گا کہ قیامت کے روز اس کا عذاب بڑھتا چلا جائے گا اور وہ اس (عذاب) میں ہمیشہ ہمیشہ ذلیل (و خوار) ہو کر رہے گا، مگر جو (شرک و معاصی سے) توبہ کرلے اور ایمان (بھی) لے آئے اور نیک کام کرتا رہے تو اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے (گزشتہ) گناہوں کی جگہ نیکیاں عنایت فرمائے گا اور اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے۔  (بیان القرآن)

اس آیت میں قتل کے بعد توبہ کا ذکر ہے۔

2۔ قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ [الزمر:53]

ترجمہ : آپ کہہ دیجیے کہ اے میرے بندو جنہوں نے (کفر و شرک کر کے) اپنے اوپر زیادتیاں کی ہیں کہ تم خدا کی رحمت سے ناامید مت ہو ، بالیقین خدا تعالیٰ تمام (گزشتہ) گناہوں کو معاف فرما دے گا،  واقعی وہ بڑا بخشنے والا بڑی رحمت والا ہے۔  (بیان القرآن)

3۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ [النساء: 48]

ترجمہ:  بیشک اللہ تعالیٰ اس بات کو نہ بخشیں گے کہ ان کے ساتھ کسی کو شریک قرار دیا جائے اور اس کے سوائے اور جتنے گناہ ہیں جس کے لیے منظور ہوگا وہ گناہ بخش دیں گے ۔ (بیان القرآن)

یہ دونوں آیتیں شرک کے علاوہ ہر قسم کے گناہ کے لیے عام ہیں۔

صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ہے بنی اسرائیل کے ایک شخص کا تذکرہ ہے جس نے سو آدمیوں کو قتل کیا اور پھر ایک عالم سے پوچھا کہ : کیا میری توبہ قبول ہوگی؟ اس نے اسے ایک  ایسے شہر  جانے کا کہا جہاں لوگ اللہ کی عبادت  کیا کرتے تھے، اس کا راستے میں انتقال ہوا تو اس کی روح رحمت کے فرشتوں نے قبض کی، جب بنی اسرائیل میں قاتل عمد کی توبہ قبول ہونے کا ضابطہ تھا تو یہ نعمت امتِ محمدیہ کے لیے بطریقِ اولی ہوگی۔

جمہور امت کے برخلاف حضرت عبد اللہ بن عباس ،زيد بن ثابت، ابو ہريرہ، عبد الله بن عمر اور بعض دیگر ائمہ سے یہ منقول ہے کہ قاتلِ عمد کی توبہ قبول نہیں ہوتی۔

سورۃ النساء کی آیت نمبر 93 اور احادیث مبارکہ میں قاتل عمد کی توبہ قبول نہ ہونے کا جو ذکر ہے جمہور کے نزدیک  اس سے جان بوجھ قتل کرنے والوں کو سختی کے ساتھ منع کرنا ہے یا یہ مراد ہے کہ اس وقت تک مغفرت نہیں ہوگی جب تک مقتول کو راضی نہ کردے یا یہ کہ اللہ تعالی اس کی مغفرت فرمادیں، بعض فرماتے ہیں کہ جس قاتل عمد کی مغفرت نہ ہونے کا ذکر ہے اس سے مراد وہ آدمی ہے جو قتل کو حلال سمجھے۔

تفسیر ابن کثیر میں ہے:

وقد كان ابن عباس، رضي الله عنهما، يرى أنه لا توبة للقاتل عمدا لمؤمن، وقال البخاري: حدثنا آدم، حدثنا شعبة، حدثنا مغيرة بن النعمان قال: سمعت ابن جبير قال: اختلف فيها أهل الكوفة، فَرَحَلْتُ إلى ابن عباس فسألته عنها فقال: نزلت هذه الآية: { وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ [خَالِدًا] هي آخر ما نزل وما نسخها شيء.

وكذا رواه هو أيضا ومسلم والنسائي من طرق، عن شعبة، به ورواه أبو داود، عن أحمد بن حنبل، عن ابن مهدي، عن سفيان الثوري، عن مغيرة بن النعمان، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس في  قوله: { وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا } فقال: لم ينسخها شيء ··· حدثنا ابن حميد، وابن وَكِيع قالا حدثنا جرير، عن يحيى الجابر، عن سالم بن أبي الجَعْد قال: كنا عند ابن عباس بعد ما كُف بصره، فأتاه رجل فناداه: يا عبد الله بن عباس، ما ترى في رجل قتل مؤمنا متعمدا؟ فقال: { جَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا } قال: أفرأيت إن تاب وعمل صالحا ثم اهتدى؟ قال ابن عباس: ثكلته أمه، وأنى له التوبة والهدى؟ والذي نفسي بيده! لقد سمعت نبيكم صلى الله عليه وسلم يقول: "ثكلته أمه، قاتل مؤمن متعمدا، جاء يوم القيامة آخذه بيمينه أو بشماله، تشخب أوداجه دمًا في قُبُل عرش الرحمن، يلزم قاتله بشماله بيده الأخرى، يقول: سل هذا فيم قتلني" ؟ وأيم الذي نفس عبد الله بيده! لقد أنزلت هذه الآية، فما نسختها من آية حتى قبض نبيكم صلى الله عليه وسلم، وما نزل بعدها من برهان ··· و ممن ذهب إلى أنه لا توبة له من السلف: زيد بن ثابت، وأبو هريرة، وعبد الله بن عمر، وأبو سلمة بن عبد الرحمن، وعبيد بن عمر، والحسن، وقتادة، والضحاك بن مزاحم، نقله ابن أبي حاتم ··· وقال الإمام أحمد: حدثنا النضر، حدثنا سليمان بن المغيرة، حدثنا حميد قال: أتاني أبو العالية أنا وصاحب لي، فقال لنا: هلما فأنتما أشب شيئًا مني، وأوعى للحديث مني، فانطلق بنا إلى بِشْر بن عاصم -فقال له أبو العالية: حدث هؤلاء حديثك. فقال: حدثنا عقبة بن مالك الليثي قال: بعث النبي صلى الله عليه وسلم سرية، فأغارت على قوم، فشد من القوم رجل، فاتبعه رجل من السرية شاهرا سيفه فقال الشاد من القوم: إني مسلم. فلم ينظر فيما قال، فضربه فقتله، فَنَمَى الحديث إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال فيه قولا شديدا، فبلغ القاتلَ. فبينا رسول الله صلى الله عليه وسلم يخطب، إذ قال القاتلُ: والله ما قال الذي قال إلا تعوذا من القتل. قال: فأعرض رسول الله صلى الله عليه وسلم عنه وعمن قبله من الناس، وأخذ في خطبته، ثم قال أيضا: يا رسول الله، ما قال الذي قال إلا تعوذا من القتل، فأعرض عنه وعمن قبله من الناس، وأخذ في خطبته، ثم لم يصبر، فقال الثالثة: والله يا رسول الله ما قال إلا تعوذا من القتل فأقبل عليه رسول الله صلى الله عليه وسلم تُعْرف المساءةُ في وجهه، فقال: "إن الله أبى على من قتل مؤمنا" ثلاثًا ··· والذي عليه الجمهور من سلف الأمة وخلفها: أن القاتل له توبة فيما بينه وبين ربه عز وجل، فإن تاب وأناب وخشع وخضع، وعمل عملا صالحا، بدل الله سيئاته حسنات، وعوض المقتول من ظلامته وأرضاه عن طلابته.

قال الله تعالى: { وَالَّذِينَ لا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ [وَلا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلا بِالْحَقِّ وَلا يَزْنُونَ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ يَلْقَ أَثَامًا * يُضَاعَفْ لَهُ الْعَذَابُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَيَخْلُدْ فِيهِ مُهَانًا] إِلا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلا صَالِحًا [فَأُولَئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا] } [الفرقان: 68، 69] وهذا خبر لا يجوز نسخه. وحمله على المشركين، وحمل هذه الآية على المؤمنين خلاف الظاهر، ويحتاج حمله إلى دليل، والله أعلم.

وقال تعالى: { قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللهِ [إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ]} [الزمر:53] وهذا عام في جميع الذنوب، من كفر وشرك، وشك ونفاق، وقتل وفسق، وغير ذلك: كل من تاب من أي ذلك تاب الله عليه.

وقال تعالى: { إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ } [النساء: 48]. فهذه الآية عامة في جميع الذنوب ما عدا الشرك، وهي مذكورة في هذه السورة الكريمة بعد هذه الآية وقبلها، لتقوية الرجاء، والله أعلم.

وثبت في الصحيحين خبر الإسرائيلي الذي قتل مائة نفس، ثم سأل عالما: هل لي من توبة؟ فقال: ومن يحول بينك وبين التوبة؟! ثم أرشده إلى بلد يَعْبد الله فيه، فهاجر إليه، فمات في الطريق، فقبضته ملائكة الرحمة. كما ذكرناه غير مرة، إن كان هذا في بني إسرائيل فَلأن يكون في هذه الأمة التوبة مقبولة بطريق الأولى والأحرى؛ لأن الله وضع عنا الأغلال والآصار التي كانت عليهم، وبعث نبينا بالحنيفية السمحة.

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح - (6 / 2270)

(وعنه) : أي: عن أبي الدرداء (عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " كل ذنب عسى الله ") : أي: يتوقع منه تعالى (" أن يغفره إلا من مات مشركا ") : أي: ذنبه. قال الأشرف: لا بد من إضمار مضاف إما في المستثنى أو في المستثنى منه، أي: كل قارف ذنب أو إلا ذنب من مات مشركا اهـ. والثاني أولى فإن الحاجة إليه عنده كما لا يخفى. (" أو من يقتل ") : وفي رواية الجامع الصغير: أو قتل (" مؤمنا متعمدا ") : بأن قصد قتله لكونه مؤمنا أو أراد به تغليظا أو حتى يرضي خصمه، أو إلا أن يغفر له لقوله تعالى: {إن الله لا يغفر أن يشرك به ويغفر ما دون ذلك لمن يشاء} [النساء: 48] قال المظهر: إذا كان مستحلا دمه. وقال الطيبي: قوله: إلا من مات مشركا من قوله تعالى: {إن الله لا يغفر أن يشرك به ويغفر ما دون ذلك لمن يشاء} [النساء: 48] وقوله: ومن يقتل مؤمنا متعمدا من قوله تعالى: {ومن يقتل مؤمنا متعمدا فجزاؤه جهنم خالدا فيها} [النساء: 93] الآية. وقد ثبت عند المعتزلة أن حكم الشرك وما دونه من الكبائر سواء في أنهما لا يغفران قبل التوبة ويغفران بعدها، وظاهر الحديث يساعد قولهم. الكشاف في قوله تعالى: {ومن يقتل مؤمنا متعمدا} [النساء: 93] 

(تفسير ابن كثير 2 / 377 ط:دار طيبة) فقط و الله أعلم


فتوی نمبر : 144109200315

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں