بِلاکوٹ گاؤں، بیسیاں کے ایک محلے میں دو سال قبل ایک شخص قتل ہو گیا۔ مقتُول کے وارثوں اور محلے والوں نے قاتِل کا سوشَل بائیکاٹ کر دیا، اور اس وقت یہ بات طے پائی کہ قاتل کی کسی بھی قسم کی حمایت نہیں کی جائے گی، نہ کوئی اُس کی پیروی کرے گا اور نہ ہی اُس کا کیس لڑے گا۔
بعد ازاں، قاتل کے چچا نے اُسے ضمانت پر جیل سے رہا کروا لیا۔ مقتُول کے ورثاء نے تاحال قاتل سے نہ کوئی صلح کی ہے اور نہ ہی کوئی لین دین۔ اب جب کہ قاتل کے والد فوت ہو گئے ہیں، تو محلے میں دو گروہ بن گئے ہیں:
ایک گروہ کہتا ہے کہ قاتل کے والد کو قبرستان میں دفن کیا جائے۔
دوسرا گروہ، سوشَل بائیکاٹ کے تسلسل میں، دفنانے کی اجازت دینے سے انکار کر رہا ہے۔
واضح رہے کہ جس قبرستان کی بات ہو رہی ہے، وہ وقف شدہ نہیں ہے، بلکہ ذاتی ملکیت ہے، اور زمین کے مالکان دفن کی اجازت دے رہے ہیں۔ سوشَل بائیکاٹ کے وقت یہ بھی طے کیا گیا تھا کہ قاتل کے حامیوں اور اُس کے گھر والوں کا بھی بائیکاٹ ہوگا، اور اُن کو قبرستان میں دفن کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
اب پوچھنا یہ ہے کہ:
١: کیا قاتل کے والد کو اس قبرستان میں دفنانے کا مطالبہ شرعاً درست ہے؟
٢: کیا شریعت میں اس طرح کا سوشَل بائیکاٹ کرنا جائز ہے؟
واضح رہے کہ شریعت میں اہلِ معاصی (یعنی گناہ گار افراد) سے سماجی تعلقات ختم کرنا، جیسے کہ بول چال بند کرنا، ملاقات سے گریز کرنا، لین دین یا دیگر معاشرتی معاملات ترک کرنا، مشروط طور پر جائز ہے، یعنی اس کی اجازت صرف اسی وقت ہے جب یہ بائیکاٹ اصلاح کی نیت سے محدود مدت ( یعنی توبہ کرنے تک ) کے لیے ہو، اور صرف متعلقہ شخص (یعنی گناہ گار فرد) تک اس بائیکاٹ کو محدود رکھا جائے۔ہمیشہ کے لیے بائیکاٹ جاری رکھنا، یا اس کا دائرہ اُس شخص کے اہل خانہ، رشتہ داروں یا دیگر متعلقین تک پھیلا دینا، شریعت میں جائز نہیں۔ کیوں کہ اس میں بلاوجہ دوسرے بے گناہوں کو نقصان پہنچتا ہے، جو کہ شرعاً ظلم کے زمرے میں آتا ہے-
لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر قبرستان کے زمین کے مالکان دفن کی اجازت دے رہے ہیں تو قاتل کے والد کو وہاں دفنانے کا مطالبہ شرعی لحاظ سے بالکل درست اور مبنی بر انصاف ہے۔ اس کے برعکس جو لوگ سوشَل بائیکاٹ کے عنوان سے قاتل کے والد کو قبرستان میں دفنانے کی مخالفت کر رہے ہیں، اُن کا یہ رویہ شریعت کے اصولوں کے خلاف ہے اور ظلم کے مترادف ہے، ایسابائیکاٹ شرعاً جائز نہیں، اس سے اجتناب لازم ہے۔
قرآن كريم میں ہے:
{) أَمْ لَمْ يُنَبَّأْ بِمَا فِي صُحُفِ مُوسَى(36) وَإِبْرَاهِيمَ الَّذِي وَفَّى (37)أَلاَّ تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى (38)} (سورۃ النجم)
”کیا اس کو اس مضمون کی خبر نہیں پہنچی جو موسی کے صحیفوں میں ہے، اور ابراہیم کے، کہ جنہوں نے احکام کی پوری بجاآوری کی ( اور وہ مضمون ) یہ ہے کہ کوئی شخص کسی کا گناہ اپنے اوپر نہیں لے سکتا۔“( ازبیان القرآن)
تفسیر ابن کثیر میں ہے:
"ثُمَّ شَرَعَ تَعَالَى يُبَيِّنُ مَا كَانَ أَوْحَاهُ فِي صُحُفِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى فَقَالَ: أَلَّا تَزِرُ وازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرى أَيْ كُلُّ نَفْسٍ ظَلَمَتْ نَفْسَهَا بِكُفْرٍ أَوْ شَيْءٍ مِنَ الذُّنُوبِ فَإِنَّمَا عَلَيْهَا وِزْرُهَا لَا يَحْمِلُهُ عَنْهَا أَحَدٌ كَمَا قَالَ: وَإِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلى حِمْلِها لَا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ وَلَوْ كانَ ذَا قُرْبى [فَاطِرٍ: 18]".
(سورة النجم (53) : الآيات 33 الى 41، ج:7، ص:431، ط:دار الكتب العلمية)
تفسیر قرطبی میں ہے:
"قوله تعالى: (ضاقت عليهم الأرض بما رحبت) أي بما اتسعت يقال: منزل رحب ورحيب ورحاب. و" ما" مصدرية، أي ضاقت عليهم الأرض برحبها، لأنهم كانوا مهجورين لا يعاملون ولا يكلمون. وفي هذا دليل على هجران أهل المعاصي حتى يتوبوا."
(سورة التوبة ، الآية: 118، ج:8، ص:287، ط:دار الكتب المصرية)
صحیح بخاری میں ہے:
"حدثنا يحيى بن بكير: حدثنا الليث، عن عقيل، عن ابن شهاب، عن عبد الرحمن بن عبد الله بن كعب بن مالك: أن عبد الله بن كعب بن مالك، وكان قائد كعب من بنيه حين عمي، قال: سمعت كعب بن مالك يحدث حين تخلف عن قصة تبوك، قال كعب:...ونهى رسول الله صلى الله عليه وسلم المسلمين عن كلامنا أيها الثلاثة من بين من تخلف عنه، فاجتنبنا الناس وتغيروا لنا، حتى تنكرت في نفسي الأرض فما هي التي أعرف، فلبثنا على ذلك خمسين ليلة...فلما صليت صلاة الفجر صبح خمسين ليلة، وأنا على ظهر بيت من بيوتنا، فبينا أنا جالس على الحال التي ذكر الله، قد ضاقت علي نفسي، وضاقت علي الأرض بما رحبت، سمعت صوت صارخ، أوفى على جبل سلع، بأعلى صوته: يا كعب بن مالك أبشر، قال: فخررت ساجدا، وعرفت أن قد جاء فرج، وآذن رسول الله صلى الله عليه وسلم بتوبة الله علينا حين صلى صلاة الفجر...وأنزل الله على رسوله صلى الله عليه وسلم: {لقد تاب الله على النبي والمهاجرين والأنصار - إلى قوله - وكونوا مع الصادقين}."
(كتاب المغازي، باب: حديث كعب بن مالك، وقول الله عز وجل: {وعلى الثلاثة الذين خلفوا}، ج:4، ص:1603، ط:دار ابن كثير)
بذل المجہود میں ہے:
"(ولا يحل لمسلم أن يهجر أخاه) أي الأخ في الدين (فوق ثلاث ليال)...قال السيوطي: والمراد حرمة الهجران إذا كان الباعث عليه وقوع تقصير في حقوق الصحبة، والأخوة، وآداب العشرة، كاغتياب، وترك نصيحة، وأما ما كان من جهة الدين والمذهب فهجران أهل البدع والأهواء واجب إلى وقت ظهور التوبة، ومن خاف من مكالمة أحد وصلته ما يفسد عليه الدين، أو يدخل مضرة في دنياه يجوز له مجانبته، والبعد عنه، ورب هجر حسن خير من مخالطة مؤذية."
(أول كتاب الأدب، باب في هجرة الرجل أخاه، 319/13، رقم:4910، ط:مركز الشيخ أبي الحسن)
فتح الباری میں ہے:
''( قوله باب ما يجوز من الهجران لمن عصى )
أراد بهذه الترجمة بيان الهجران الجائز لأن عموم النهي مخصوص بمن لم يكن لهجره سبب مشروع فتبين هنا السبب المسوغ للهجر وهو لمن صدرت منه معصية فيسوغ لمن اطلع عليها منه هجره عليها ليكف عنها."
(فتح الباری،10/497،ط:دارالمعرفۃ بیروت)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144701100043
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن