جامعہ کی ویب سائٹ پر ایک مسئلہ دیکھا "ایکسیڈنٹ میں قتل کا کیا حکم ہے؟" اسی طرح ایک دوسرا مسئلہ بھی اسی سے متعلق دیکھا " کفارہ قتل کے ساٹھ روزے بیماری کی وجہ سے نہ رکھ سکتا ہو تو کیا کرے؟" دونوں فتاویٰ کو دیکھا تو بظاہر تعارض نظر آیا، ایک فتویٰ میں کفارہ کی بجائے فدیہ کا حکم نہیں لگایا گیا ہے، بلکہ اس کی نفی کی گئی ہے، جو بندہ کے ناقص علم کے مطابق قواعد اور دلیل کے مطابق ہے، جب کہ دوسرے فتویٰ میں فدیہ یا وصیت کا کہا گیا ہے؛ اس لیے دونوں فتاویٰ کا محمل کیا ہے یا کوئی توجیہ و تطبیق ہو جو خلجان دفع کرنے کا سبب بنے۔ وضاحت کر کے عند اللہ ماجور ہوں!
مذکورہ دونوں فتاوی مندرجہ ذیل ہیں:
ایکسیڈنٹ میں قتل کا کیا حکم ہے؟ نیز کفارہ میں روزوں کے بدلے فدیہ دیا جاسکتا ہے؟
جواب
ڈرائیور اگر غلطی سے غیر عمدی طور پر ایکسیڈنٹ کے ذریعہ اپنی سواری کے علاوہ کسی دوسرے کو قتل کردے تو یہ قتلِ خطا ہے اور اس کی وجہ سے کفارہ اور دیت دونوں لازم ہوں گے (بشرط یہ کہ ایکسیڈنٹ ڈرائیور کی غلطی کی وجہ سے ہوا ہو)۔
کفارے کے طور پر اس ڈرائیور کو مسلسل ساٹھ روزے رکھنے پڑیں گے، البتہ دیت کی ادائیگی اس ڈرائیور کی "عاقلہ" کے ذمہ ہے۔ عاقلہ سے مراد وہ جماعت، تنظیم یا کمیونٹی ہے جس کے ساتھ اس ڈرائیور کا تناصر (یعنی باہمی تعاون) کا تعلق ہو، یہ دیت تین سال میں ادا کی جائے گی، سونے کی صورت میں اگر دیت ادا کی جائے تو دیت کی مقدار ایک ہزار دینار اور درہم کے اعتبار سے دس ہزار (۱۰،۰۰۰ ) درھم ہے جس کا اندازا جدید پیمانے سے 30.618 کلوگرام چاندی یا اس کی قیمت ہے۔
کفارے میں مسلسل ساٹھ روزے رکھنا قاتل پر لازم ہو گا، کفارہ کے روزے میں اگرمرض کی وجہ سے تسلسل باقی نہ رہے تو از سر نو رکھنے پڑیں گے، ہاں! عورت کے حیض کی وجہ سے تسلسل ختم نہیں ہوگا، یعنی اگر کسی عورت سے قتل ہو گیا اور وہ 60 روزے کفارہ میں رکھ رہی ہے تو 60 روزے رکھنے کے دوران ماہ واری کے آنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا، وہ ماہ واری سے فراغت کے بعد 60 روزوں کو جاری رکھے گی۔
اور کفارہ میں روزے رکھنا ہی لازم ہو گا، ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانے کا اس میں حکم نہیں ہے۔ فقط واللہ اعلم
2:قتل جاری مجرای خطا میں بندہ اگر 60 روزے مستقل بیماری کی وجہ سے نہ رکھ سکتا ہو تو پھر کیا کفارہ ہے؟
جواب
صورتِ مسئولہ میں صحت ملنے کا انتظار کرے اور تاخیر پر استغفار کرتا رہے، اگر موت تک کفارے کے روزے رکھنے کی طاقت میسر نہ آسکے تو ان کے فدیہ کی ادائیگی کی وصیت کرجائے، نیز اگر مذکورہ شخص شیخِ فانی ہو یا ایسے کسی مرض مبتلا ہو جس سے صحت کی امید نہ رہی ہو تو ایسی صورت میں وہ روزوں کا فدیہ اپنی حیات میں ادا کر سکتا ہے۔ فقط واللہ اعلم
بصورتِ مسئولہ قتلِ خطاء کا کفارہ یہ ہے کہ قاتل پر دو مہینے مسلسل روزے رکھنا لازم ہے، اور کفارہ میں روزے کے بجائے کسی دوسرے متبادل (فدیہ) پر عمل نہیں کیا جاسکتا، تاہم اگر قاتل کسی عذر مثلاً کسی دائمی بیماری یا بڑھاپے کی وجہ سے روزے رکھنے کی طاقت نہ رکھے تو استغفار کرتا رہے، اگر موت تک کفارے کے روزے رکھنے کی طاقت ہی میسر نہ آسکے تو ان کے فدیہ کی ادائیگی کی وصیت کرجائے۔ کتبِ فقہ و فتاویٰ کی مراجعت سے یہی بات معلوم ہوتی ہے۔
سوال میں ذکر کردہ دوسرے جواب میں غیر مظان کے ایک فقہی جزئیے کی بنا پر تسامح ہوگیا تھا، سائل کی طرف سے توجہ دلانے پر کتبِ فقہ و فتاویٰ کی مراجعت کی گئی، کافی غور و خوض اور تحقیق کے بعد اسی نتیجے پر پہنچے کہ شیخِ فانی یا دائمی مریض کو کفارے میں لازم روزوں کا فدیہ ادا کرنے کی اجازت نہیں ہے، البتہ موت تک بھی روزے نہ رکھ سکے تو اپنے بعد فدیہ ادا کرنے کی وصیت کردینی چاہیے۔ اور سوال میں ذکر کردہ پہلا جواب درست ہے۔
سائل کی طرف سے توجہ دلانے پر ادارہ شکر گزار ہے، اس کے ساتھ ہی سابقہ جواب میں موجود تسامح کو حذف کردیا گیا ہے۔
حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح میں ہے:
"قوله: "لاتجب عليه الفدية"؛ لأنه يخالف غيره في التخفيف لا في التغليظ، كذا في الشرح. و قال في الدر في وجوب الفدية على الفاني: إذ الصوم أصل بنفسه، و خوطب بأدائه حتى لو لزمه الصوم لكفارة يمين أو قتل ثم عجز لم تجز الفدية؛ لأن الصوم هنا بدل عن غيره."
( كتاب الصوم، فصل في العوارض، ٦٨٨، ط: دار الكتب العلمية بيروت - لبنان)
الدر المختار مع حاشية ابن عابدين میں ہے:
"(وللشيخ الفاني العاجز عن الصوم الفطر ويفدي) وجوبًا ولو في أول الشهر وبلا تعدد فقير كالفطرة لو موسرًا وإلا فيستغفر الله، هذا إذا كان الصوم أصلًا بنفسه وخوطب بأدائه، حتى لو لزمه الصوم لكفارة يمين أو قتل ثم عجز لم تجز الفدية؛ لأن الصوم هنا بدل عن غيره، (قوله: حتى لو لزمه الصوم إلخ) تفريع على مفهوم قوله: أصلًا بنفسه، وقيد بكفارة اليمين والقتل احترازًا عن كفارة الظهار والإفطار إذا عجز عن الإعتاق لإعساره وعن الصوم لكبره، فله أن يطعم ستين مسكينًا لأن هذا صار بدلًا عن الصيام بالنص والإطعام في كفارة اليمين ليس ببدل عن الصيام بل الصيام بدل عنه، سراج. وفي البحر عن الخانية وغاية البيان: وكذا لو حلق رأسه وهو محرم عن أذى ولم يجد نسكا يذبحه ولا ثلاثة آصع حنطة يفرقها على ستة مساكين وهو فان لم يستطع الصيام فأطعم عن الصيام لم يجز لأنه بدل (قوله: لم تجز الفدية) أي في حال حياته بخلاف ما لو أوصى بها، كما مر تحريره."
( كتاب الصوم، فصل في العوارض المبيحة لعدم الصوم، ٢ / ٤٢٧، ط: دار الفكر)
فتاوی شامی میں ہے:
"(وكفارتهما) أي الخطأ وشبه العمد (عتق قن مؤمن فإن عجز عنه صام شهرين ولاء ولا إطعام فيهما) إذ لم يرد به النص والمقادير توقيفية."
(كتاب الديات، ج:6، ص:574، ط:ايج ايم سعيد)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144203201134
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن