بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

قطر میں مقیم شخص کے ذمہ اپنے نابالغ بچوں اور اہیلہ کا صدقہ فطر


سوال

 میں قطر میں مقیم  ہوں،  صدقہ فطر  میں کن کن افراد کا دینے کا پابند ہوں،  میرے 3نابالغ بچے اور بیوی پاکستان میں  ہے؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں  اگر آپ کے نابالغ بچوں کے پاس اپنا کوئی مال نہ ہو   اور آپ صاحبِ نصاب ہوں تو آپ  پر اپنے اور اپنے نابالغ بچوں کی طرف سے صدقہ فطر ادا کرنا واجب ہوگا،اور  اگر ان نابالغ بچوں  کا اپنا مال ہو تو   ان کا صدقہ فطر ان  کے مال میں سے بھی ادا کرسکتے ہیں۔

اور صدقہ فطر کی مقدار گندم کے حساب سے  پونے دو کلو گندم ہے اور کھجور، جو اور کشمش کے حساب سے ساڑھے تین کلو  کھجور، جَو  اور کشمش  ہے، چاہےکہیں بھی ادا کیا جائے، اور اگر قیمت ادا کرنی ہے تو جہاں ادائیگی کرنے والا موجود ہے  وہاں کا اعتبار ہوگا، لہذا  اگر آپ قطر  میں مقیم ہیں  اور عید الفطر بھی وہیں کریں گے تو  آپ پر اپنا اور اپنے نابالغ بچوں کا صدقہ فطر  ، قطر کے نرخ کے حساب سے دینا لازم ہوگا،   خواہ آپ یہ قیمت قطر میں ادا کریں یا آپ کی اجازت سے پاکستان میں ادا کی جائے۔

باقی آپ کی اہلیہ  جو کہ پاکستان میں ہیں،ان کا اپنا صدقہ فطر  پاکستان کے نرخ کے مطابق  خود ان کے ذمہ لازم ہے، لہذا وہ خود پاکستان میں پاکستان کی قیمت کے حساب سے دے سکتی  ہیں،  اور اگر آپ کی ان کی طرف سے ادا کرنا چاہتے ہیں تو ایسی قیمت لگانا بہتر ہے جس میں فقراء کا زیادہ فائدہ ہو۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 355):

"والمعتبر في الزكاة فقراء مكان المال، وفي الوصية مكان الموصي، وفي الفطرة مكان المؤدي عند محمد، وهو الأصح، وأن رءوسهم تبع لرأسه.
(قوله: مكان المؤدي) أي لا مكان الرأس الذي يؤدي عنه (قوله: وهو الأصح) بل صرح في النهاية والعناية بأنه ظاهر الرواية، كما في الشرنبلالية، وهو المذهب كما في البحر؛ فكان أولى مما في الفتح من تصحيح قولهما باعتبار مكان المؤدى عنه".

الفتاوى الهندية (1/ 190):

"ثم المعتبر في الزكاة مكان المال حتى لو كان هو في بلد، وماله في بلد آخر يفرق في موضع المال، وفي صدقة الفطر يعتبر مكانه لا مكان أولاده الصغار وعبيده في الصحيح، كذا في التبيين. وعليه الفتوى، كذا في المضمرات".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 359):

"(على كل) حر (مسلم) ولو صغيراً مجنوناً، حتى لو لم يخرجها وليهما وجب الأداء بعد البلوغ (ذي نصاب فاضل عن حاجته الأصلية) كدينه وحوائج عياله (وإن لم يتم) كما مر. 

(قوله: ولو صغيراً مجنوناً) في بعض النسخ: أو مجنونا بالعطف بأو وفي بعضها بالواو، وهذا لو كان لهما مال، قال في البدائع.
وأما العقل والبلوغ فليسا من شرائط الوجوب في قول أبي حنيفة وأبي يوسف، حتى تجب على الصبي والمجنون إذا كان لهما مال ويخرجها الولي من مالهما، وقال محمد وزفر: لاتجب فيضمنها الأب والوصي لو أدياها من مالهما اهـ وكما تجب فطرتهما تجب فطرة رقيقهما من مالهما، كما في الهندية والبحر عن الظهيرية. (قوله: حتى لو لم يخرجها وليهما) أي من مالهما. ففي البدائع أن الصبي الغني إذا لم يخرج وليه عنه فعلى أصل أبي حنيفة وأبي يوسف أنه يلزمه الأداء؛ لأنه يقدر عليه بعد البلوغ. اهـ.قلت: فلو كانا فقيرين لم تجب عليهما بل على من يمونهما كما يأتي. والظاهر أنه لو لم يؤدها عنهما من ماله لا يلزمهما الأداء بعد البلوغ والإفاقة لعدم الوجوب عليهما". 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209201223

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں