بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

علماء کرام کا قتل / قتل میں معاونت اور موبائل ریکارڈنگ کی گواہی سے قصاص کا حکم


سوال

ایک عالم دین كے قتل كا كیا حكم ہے‏؟ اور كیا موبائل كال كی ریكارڈینگ اور افراد كی آواز  بینہ كے حكم میں ہے یا نہیں؟ افغانستان كے علمائے اہل سنت و جماعت میں سے ایک معروف شخصیت، جو درس وتدریس و درسِ قرآن کی خدمات كے ساتھ ساتھ خرافات اور بدعات و شركیات كے خلاف بھی مبارزہ سرانجام دے رہے تھے‏؛ كہ افسوس كے ساتھ دشمنانِ دین نے ان كو اس طرح شہید كیا:

شہادت كے حادثے سے تقریبًا دومہینے پہلے ایك شخص (عبداللہ‏، مستعار نام) (بظاہر عالم) نے شہید مفتی صاحب كے گھر آكر ان سے درخواست كیا كہ صوبہ فراہ كے ایك گاؤں میں مدرسہ بنات کی بنیاد ركھنے میں ساتھ دیں اور اس كے متعلق تعاون بھی كریں‏، اور اسی بہانے سے کئی بار اس شخص كا شہید مفتی صاحب كے گھر آنا ہوا‏، لیكن اس شخص كو كسی نے دیكھا نہیں‏، بالآخر ایك دن اس نے صبح كے وقت مفتی صاحب كو فون كركے كہا كہ فلاں گاؤں میں جا كر مدرسہ بنات كی بنیاد ركھیں اور آغاز كرائیں؛ شہید مفتی صاحب نے بھی ایك عالم (احمد‏، مستعار نام) كو فون كیا‏، اور ساتھ جانے كی اور اس امر خیر میں اس كے تعاون كرنے‏ كی درخواست كی، (در اصل یہ احمد اس مافیایی باند كے سربراہ تھے جو كہ دشمنان دین كے ساتھ وابستہ تھے‏، اور قتل كی پلاننگ كرنے والوں میں سے تھے‏، شہید مفتی صاحب كو خبر نہیں تھی كہ احمد‏، ان كی جان لینے كے درپے ہے) اور شہید مفتی صاحب كے بھی رشتہ دار تھے‏، تو احمد نے كال كے ذریعے مفتی صاحب كو ”ہاں“ بولا اور اس راستے سے چلنے كی درخواست كی كہ جس راستے میں گھات لگانے والا (حملہ كے لیے منتظر شخص) تھا‏، پھر احمد‏، شہید مفتی صاحب كے پیچھے پیچھے چلا (احمد نے خود کئی مجلس میں شہید مفتی صاحب كے تعاقب كرنے كا اقرار بھی كیاہے) یہاں تك كہ جب مفتی صاحب مقصود راستے كو اپنا مسیر بنالیتے ہیں تو‏ احمد‏، واپس لوٹ جاتاہے‏، اور مفتی صاحب كے ساتھ نہیں جاتا‏، اور قاتل (گھات میں بیٹھنے والاشخص) كو فون كركے مطلع كرتاہے كہ ٹارگٹ شخص آرہاہے‏، جب مفتی صاحب آدھے راستے میں پہنچتے ہیں تو وہ شخص ان كو شہید كركے بھاگ جاتاہے‏، پھر شہید كرنے كے بعد قاتل احمد كو فون كركے بتادیتاہے كہ كام مكمل ہوگیا‏۔

اور یہ بھی ثابت ہوا ہے كہ یہ سب پیسوں كے بدلے میں كیا گیا ہے‏؛ اور ہمارے پاس قتل كو ثابت كرنے كے لیے گواہ بھی نہیں ہے‏، اور ان لوگوں سے تحقیق بھی نہیں ہوا ہے كہ اقرار کریں گے یا نہیں‏، لیكن چھ مہینے کی تحقیق كے بعد ہمیں یہ ثابت ہوا ہے كہ قاتل اور سازش كرنے والے یہی ہیں جو گرفتار كرایا گیا!

البتہ ہم لوگوں نے ان كے موبائل فون کی ریكارڈینگ‏، اور ان لوگوں کی ایك دوسرے كے ساتھ جو بات چیت ہوئی ہے‏، تحقيق كركے سب كو نكال دیا‏، اسی كی بنیاد پر مجرمین (احمد اور اس كا بھائی‏، اور قاتل مباشر)‏ كو گرفتار كرادیا‏، تا كہ شریعتِ الہی كے روشنی میں ان مجرموں كو سزا دی جائے؛ تو اس معاملے كے متعلق چند سوالات در پیش ہیں، امید ہے كہ اس بارے میں شریعت كے حكم بیان فرمائیں تا كہ دارالافتاء كے صادر كردہ فتوی پر محكمے میں عمل كیا جائے:

1‌- كیا یہ قتل بھی دوسرے قتلوں كی طرح ہے‏؟ اوركیا صرف قاتل مباشر كو ہی قصاص كی سزا دی جائے گی یا كہ بڑوں اور علماء كے قتل كا حكم محاربہ اور فساد فی الأرض كے حكم میں ہوكر‏، جو سازش كرنے والے ہیں ان كو بھی قصاص كیا جائے گا؟

2‌- عبداللہ جو كہ شہید مفتی صاحب كے گھر میں کئی بار مدرسہ بنات كے سلسلے میں آئے تھے‏، اور احمد جس نے مفتی صاحب كا تعاقب كیا‏تھا، اور قتل کا پلان بنایاتھا‏، كیا ان دونوں شخص پر قصاص ہوگا یا كوئی اور سزا دی جائے گی؟

3‌- كیا موبائل فون كال کی ریكارڈنگ جب كہ خود انہیں اشخاص کی آواز موجود ہے‏، جو كہ قتل كے متعلق بات چیت كرتے ہیں‏، جرم كے اثبات كے لیے اور بینہ كے طور پر مانی جائے گی  یا نہیں؟ ہمیں اس معاملہ میں كیا کرنا چاہیے؟

جواب

واضح رہے کہ قتل میں اعانت اور معاونت کی مختلف صورتیں ہیں، اگر معاونت کرنے والا شخص قتل کے فعل میں شریک ہو اور کئی اشخاص مل کرایک شخص کو قتل کریں تو سب سے قصاص لیا جائے گا، نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ :

"اگر منی کے باشندے جمع ہو کر کسی ایک مسلمان کو عمدًا قتل کریں تو میں ا س کے بدلے سب کو قتل کروں گا۔"

"حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس ایک مقدمہ پیش ہوا، جس میں یمن کے چار افراد نے مل کر ایک بچے کو قتل کیا تھا، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ان سب سے قصاص لینے کا حکم جاری کیا"۔

 لیکن اگر تعاون صرف معاونت کی حد تک ہی ہو، معاون شخص قتل میں عملًا شریک نہ ہو تو اس سے قصا ص نہیں لیا جائے گا، ایسے ہی ایک شخص کے متعلق نبی کریم ﷺ نے فیصلہ سنایا کہ : قاتل کو قتل کیا جائے گا اور پکڑنے والے کو قید کیا جائے گا، مقتول کے پکڑنے والے کو قاتل کے برابر سزا نہیں دی، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اسی طرح ایک شخص کوعمر بھر قید کی سزا سنائی۔

1۔  صورتِ مسئولہ میں  کسی عالمِ دین کو قتل کرنا بہت بڑا گناہ اور خلقِ خدا  کے ایک بڑے حصے کو دینی اور دنیوی راہ نمائی سے محروم کرنا ہے، اس عمل کی جتنی شناعت بیان کی جائے وہ کم ہے، تاہم جس طرح ایک غیر عالم شخص کو قتل کرنے کی وجہ سے قصاص واجب ہوتا ہے اور قتل میں  محض تعاون کرنے اور اس میں عملًا شریک نہ ہونے کی وجہ سے قصاص واجب نہیں ہوتا، بلکہ ایسا کرنا قابلِ تعزیر جرم ہے، اسی طرح ایک عالمِ دین کو قتل کرنے کی بھی یہی سزا ہے۔

2۔ جن لوگوں نے مذکورہ عالمِ دین کو قتل گاہ کی طرف لے جانے  کی سازش کی  اور قاتلوں کے ساتھ ساز باز کرکے انہیں قتل کیا ،ان کا یہ فعل بہت بڑا گناہ اور قابلِ تعزیر جرم ہے، حکومتِ وقت انہیں تعزیری سزا دے گی، تاہم ان سے  قصاص نہیں لیا جائے گا،  ذکر کردہ تعزیری سزا قاضی وقت کی صواب دید پر موقوف ہے، اگر وہ مناسب سمجھے تو تعزیرًا انہیں قتل بھی کرسکتا ہے، لیکن قاضی یا اس کے نائب کے علاوہ یہ اختیار کسی دوسرے شخص کو حاصل نہیں۔

3۔ قصاص واجب ہونے کے لیے قاتل کا اقرار یا  مدعی کی جانب سے دو مردوں کی گواہی ہونا ضروری ہے،  موبائل فون کی ریکارڈنگ کو "بینہ" (گواہی) کے طور پرقبول نہیں کیا جائے گا، کیوں کہ آواز میں اشتباہ اور مماثلت ممکن ہے، جب کہ حدود و قصاص کے ثبوت اور نفاذ  میں کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں، نیز آج کل کے زمانے میں ایڈیٹنگ وغیرہ کے ذریعہ مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کا امکان بھی موجود ہے، لہذا  موبائل فون کی ریکارڈنگ  کو "گواہ" اور "بینہ"  کے طور پر قبول کرنا درست نہیں، تاہم اگر ملزمان  موبائل فون کی ریکارڈنگ اور ان کی فون کال کی "ہسٹری" اور "ڈیٹا" دیکھنے کے بعد قتل کا اقرار کرتے ہیں تو ان سے قصاص لیا جائے گا۔

حوالہ جات ملاحظہ ہوں:

"ابن عباس : لو اجتمع أهل منى على قتل مسلم عمدا لقتلتهم به."

(الفردوس بمأثور الخطاب، باب اللام 3/ 373 ط: دار الكتب العلمية)

"عن إسماعيل بن أمية، قال: قضى رسول الله صلى الله عليه وسلم في رجل أمسك رجلا وقتل الآخر قال: يقتل القاتل، ويحبس الممسك."

(السنن الكبرى للبيهقي، جماع أبواب صفة قتل العمد وشبه العمد، باب الرجل يحبس الرجل للآخر فيقتله 8/ 90 ط: دار الكتب العلمية)

"عن علي بن أبي طالب رضي الله عنه: أنه قضى في رجل قتل رجلا متعمدا وأمسكه آخر  قال: يقتل القاتل ويحبس الآخر في السجن حتى يموت."

(معرفة السنن والآثار 12/ 59 دار قتيبة، دمشق)

"عن نافع عن ابن عمر رضي الله عنهما أن غلاما قتل غيلة فقال عمر لو اشترك فيها أهل صنعاء لقتلتهم."

(صحيح البخاري، كتاب الديات، باب إذا أصاب قوم من رجل هل يعاقب أو يقتص منهم كلهم 6/ 2526 ط: دار ابن كثير)

"وأثره هذا مختصر من الأثر الذي وصله عبد الله بن وهب ومن طريقه قاسم بن إصبغ والطحاوي والبيهقي، وقال ابن وهب: حدثني جرير بن حازم أن المغيرة بن حكيم الصنعاني حدثه عن أبيه: أن امرأة بصنعاء غاب عنها زوجها وترك في حجرها ابنا له من غيرها، غلاما يقال له: أصيل، فاتخذت المرأة بعد زوجها خليلا، فقالت له: إن هذا الغلام يفضحنا، فاقتله فأبى فامتنعت منه، فطاوعها فاجتمع على قتل الغلام الرجل ورجل آخر والمرأة وخادمها، فقتلوه ثم قطعوا أعضاءه وجعلوه في عيبة بفتح العين المهملة وسكون الياء آخر الحروف والباء الموحدة المفتوحة، وهي وعاء من أدم فطرحوه في ركية بفتح الراء وكسر الكاف وتشديد الياء آخر الحروف، وهي البئر التي لم تطو في ناحية القرية ليس فيها ماء ... فذكر القصة. وفيه: فأخذ خليلها فاعترف، ثم اعترف الباقون فكتب يعلى وهو يومئذ أمير بشأنهم إلى عمر بن الخطاب، رضي الله تعالى عنه، فكتب إليه عمر بقتلهم. قوله: إن أربعة هم: خليل المرأة ورجل آخر والمرأة وخادمها. قوله: صبيا هو الذي ذكرنا اسمه الآن، قوله: مثله أي: مثل قوله: لو اشترك فيها أهل صنعاء لقتلتهم."

(عمدة القاري شرح صحيح البخاري 24/ 55 ط: دار إحياء التراث العربي)

"ولكن الخلاف فى حكم من اتفق ولم يحضر القتل، أو أعان عليه ولم يباشره فأبو حنيفة والشافعى وأحمد يرون القصاص من المباشر فقط، وتعزير من لم يباشر."

(التشريع الجنائي في الإسلام 3/ 138 ط:دار الكتب العلمية)

"وإذا قتل جماعة واحدا عمدا تقتل الجماعة بالواحد كذا في الكافي."

(الفتاوى الهندية، كتاب الجنايات، الباب الأول 6/ 5 ط: دار الفكر)

"وفيه (قمط رجلا وطرحه قدام أسد أو سبع فقتله فلا قود فيه ولا دية ويعزر ويضرب ويحبس إلى أن يموت) زاد في البزازية: وعن الإمام عليه الدية، ولو قمط صبيا وألقاه في الشمس أو البرد حتى مات فعلى عاقلته الدية. وفي الخانية: قمط رجلا وألقاه في البحر فرسب وغرق كما ألقاه فعلى عاقلته الدية عند أبي حنيفة ولو سبح ساعة ثم غرق فلا دية لأنه غرق بعجزه، وفي الأولى غرق بطرحه في الماء."

(رد المحتار، كتاب الجنايات 6/ 544 ط: سعيد)

"(ونصابها للزنا أربعة رجال) ليس منهم ابن زوجها، ولو علق عتقه بالزنا وقع برجلين ولا حد، ولو شهدا بعتقه ثم أربعة بزناه محصنا فأعتقه القاضي ثم رجمه ثم رجع الكل ضمن الأولان قيمته لمولاه والأربعة ديته له أيضا لو وارثه (و) لبقية (الحدود والقود و) منه (إسلام كافر ذكر) لمآلها لقتله بخلاف الأنثى بحر (و) مثله (ردة مسلم رجلان)."

(الدر المختار وحاشية ابن عابدين، كتاب الشهادات 5/ 464 ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144203200402

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں