بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

قتل کرنے والے کو روکنے کے لیے قتل کرنے کا حکم


سوال

 ایک زمین کا معاملہ ہے،  جس میں میں الحمدللہ حق پر ہوں۔ مخالف فریق نے جب زمین مجھے بیچی تو میں نے ان کو ان کی ڈیمانڈ سے کافی زیادہ رقم بھی دی۔ لیکن اب  چوں کہ زمین کا ریٹ بہت زیادہ ہو گیا ہے تو وہ لالچ میں پڑ گئے ہیں۔ رشتہ داریوں کا سلسلہ کچھ اس طرح ہے کہ اکثریت فریق مخالف کے ساتھ ہو گئی ہے۔ حالاں کہ فرداً فرداً یہی لوگ چوری چھپے مجھے حق پر گردانتے ہیں۔ کیوں کہ معاملہ سب کو معلوم ہے۔ لیکن جب بات گواہی کی آتی ہے تو یا چپ ہو جاتے ہیں یا اس کے ساتھ۔ فریق مخالف کے پاس  چوں کہ کوئی قانونی ، شرعی یا اخلاقی عزر نہیں ہے اس  لیے وہ زمین ہتھیانے کے  لیے بدمعاشی پر اتر آیا ہے اور میری جان کے درپے ہو گیا ہے۔ جس پر برادری اور رشتہ دار چپ ہیں۔ اور کچھ کے عمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ مجھے مار دیا جائے یا پھر میں فریق مخالف کو مار دوں:

سوال۔ 1 اگر کوئی قتل ہو جائے تو کیا ایسے سب لوگ جو معاملے کو بھڑکا رہے ہیں وہ سب اللّٰہ کے ہاں اس قتل میں شریک نہیں ٹھہرائے جائیں گے ؟

2 اگر مجھے کوئی مارنے آئے اور میں اپنے دفاع میں اسے مار دوں تو کیا مجھ پر قتل کا گناہ ہو گا ؟

3 اس معاملے کو ہوا دینے والوں میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو بظاہر بہت عبادت گزار بنتے ہیں، کیا ان کی عبادتیں قبول ہوتی ہوں گی ؟ 

جواب

۱) قتل کا گناہ صرف قاتل کو ہی ہوگا البتہ جو لوگ بے جا اس معاملہ کو بھڑکا رہے ہیں وہ اس فساد کی وجہ سے گناہ گار ہوں گے۔

۲) سائل کے لیے اپنی جان بچانا ہر طریقہ سے جائز ہے اور اگر اس جان بچانے میں قاتل قتل ہوجاتا ہے تو اپنی جان بچانے کی غرض سے قاتل کے قتل کرنے پر سائل گناہ گار نہیں ہوگا۔ نیز یہ واضح رہے کہ اگر قاتل قتل کا ارادہ کرنے کے بعد رک جاتا ہے اور وہ اپنے اس فعل سے پیچھے ہٹ جاتا ہے تو پھر اس قتل کے اقدام کے ختم ہونے کے بعد سائل کے لیے اس شخص کو قتل کرنا جائز نہیں ہوگا ۔

۳) اول تو مذکورہ معاملہ کی مکمل تفصیل معلوم ہوئے بغیر یہ فیصلہ کرنا ممکن نہیں ہے کہ سائل حق پر ہے یا فریق مخالف حق پر ہے، نیز بالفرض اگر سائل حق پر ہے اور بعض عبادت گزار لوگ بے جا سائل کے خلاف معاملہ کو بھڑکا رہے ہیں تب بھی ان کی دیگر عبادات ضائع نہیں ہوں گی البتہ عبادات کا پورا ثواب اور نورانیت حاصل نہیں ہوگی، نیز  وہ اس فساد کی وجہ سے گناہ گار ہوں گے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(ويجب قتل من شهر سيفا على المسلمين) يعني في الحال كما نص عليه ابن الكمال حيث غير عبارة الوقاية فقال: ويجب دفع من شهر سيفا على المسلمين ولو بقتله إن لم يمكن دفع ضرره إلا به صرح به في الكفاية: أي لأنه من باب دفع الصائل صرح به الشمني وغيره، ويأتي ما يؤيده (ولا شيء بقتله) بخلاف الحمل الصائل. (ولا) يقتل (من شهر سلاحا على رجل ليلا أو نهارا في مصر أو غيره أو شهر عليه عصا ليلا في مصر أو نهارا في غيره فقتله المشهور عليه)

(قوله صرح به في الكفاية) ليس هذا في عبارة ابن الكمال. وعبارة الكفاية أي إنما يجب القتل؛ لأن دفع الضرر واجب اهـ.وفي المعراج: معنى الوجوب وجوب دفع الضرر لا أن يكون عين القتل واجبا

(قوله على رجل) أي قاصدا قتله بدلالة الحال لا مزاحا ولعبا أفاده الزيلعي في الطلاق، وأفاد بهذه المسألة أن الواحد كالمسلمين."

(کتاب الجنایات، فصل فی ما یوجب القود ج نمبر ۶ ص نمبر ۵۴۵،ایچ ایم سعید)

مرقاة المفاتيح  میں ہے:

"وعن أبي بكر الصديق - رضي الله عنه - قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " «ملعون من ضار مؤمنا أو مكر به» ". رواه الترمذي وقال: هذا حديث غريب.

5042 - (وعن أبي بكر الصديق - رضي الله عنه - قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ملعون) أي: مبعود عن الخير (من ضار مؤمنا) أي: ضررا ظاهرا (أو مكر به) أي: بإيصال الضرر إليه خفية (رواه الترمذي وقال: هذا حديث غريب) . قال صاحب التصحيح وفي سنده أبو سلمة الكندي لا يعرف عن فرقد السنجي، وثقه ابن معين وضعفه غيره ذكره ميرك."

(کتاب  الآداب ، باب ما ینھی عن التھاجر و التقاطع ج نمبر ۸ ص نمبر ۳۱۵۶، دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144405100097

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں